66

مکتوب 99: مختلف سوالوں کے جواب میں میر


مکتوب 99

مختلف سوالوں کے جواب میں میر محمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے:۔


بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامٌ على عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ ( اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو )۔

آپ نے پو چھا تھا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سالک عروج کے وقت اپنے آپ کو انبیاء کے اصحاب کرام کے مقامات میں پاتا ہے جو انبیاء کے بعد بالا تفاق تمام بنی آدم سے افضل ہیں ، بلکہ بسا اوقات اپنے آپ کو انبیاء کے مقامات میں پاتا ہے۔ اس معاملہ کی حقیقت کیا ہے۔ اس امر ہا سے بعض لوگ وہم کرتے ہیں کہ وہ سالک ان مقامات والوں کے ساتھ برابر اور شریک ہے اور اس وہم و خیال سے سالک کو ر د و طعن کرتے ہیں اور اس کے حق میں سلامت و شکایت کی زبان
دراز کرتے ہیں ۔ اس معما کو بخوبی حل کرنا چاہئے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ادنی شخص کا اعلیٰ لوگوں کے مقامات میں پہنچنا بھی اس طرح ہوتا ہے جس طرح فقیر اور محتاج دولتمندوں کے دروازوں اور معموں کے خاص مکانوں میں جا نکلتے ہیں۔ تا کہ ان سے اپنی حاجت طلب کریں اور ان کی دولت و نعمت سے کچھ مانگیں ۔ وہ بہت ہی بیوقوف ہے جو اس طرح کے جانے کو برابری اور شرکت خیال کرے۔ کبھی یہ وصول تماشا کے طور پر ہوتا ہے تا کہ کسی واسطہ اور وسیلہ سے امیروں اور بادشاہوں کے خاص مکانوں کی سیر کریں اور اعتبار کی نظر سے تماشا کریں تا کہ بلندی کی رغبت پیدا ہو۔ اس وصول سے برابری کا وہم کس طرح ہو سکتا ہے اور اس سیر تماشا سے شرکت کا خیال کس طرح پیدا ہوسکتا ہے اور خادموں کا اپنے مخدوموں کے اصل مکانوں میں اس غرض کے لیے جاتا کہ حق خدمت بجالائیں۔ ہر ایک ادنی و اعلیٰ کو معلوم ہے۔ وہ بیوقوف ہی ہوگا جو اس وصول سے برابری و شرکت کا وہم کرے گا۔ فراش و مگس ران اور شمشیر برادر ہر وقت بادشاہوں کے ہمراہ رہتے ہیں اور ان کے خاص خاص مکانوں میں حاضر ہوتے ہیں ۔ وہ خبطی اور دیوانہ ہے جو اس سے شرکت و مساوات کا وہم کرے ۔

بلائے درد مندان از در و دیوار می آید
ترجمه
درو دیوار سے آتی بلا ہے دردمندوں کی


لوگ بیچارے سالک کی ملامت کے لیے بہانہ طلب کرتے ہیں اور اس کی طعن وتشنیع کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ ان کو انصاف دے ان کو چاہئے تھا کہ اس بیچارہ کے حق میں کوئی ایسی وجہ ڈھونڈتے جس سے شر و علامت اس سے دور ہوتی اور مسلمان کی عزت محفوظ رہتی ۔ طعن کرنے والوں کا حال دوامر سے خالی نہیں ۔ اگر ان کا یہ اعتقاد ہے کہ اس حال والا شخص ان مقامات عالیہ والے لوگوں کے ساتھ شرکت و مساوات کا معتقد ہے۔ واقعی اس کو کا فرزندیق خیال کریں اور مسلمانوں کے گروہ سے خارج تصور کریں ، کیونکہ نبوت میں شریک ہونا اور انبیاء علیہم السلام کے ساتھ برابری کرنا کفر ہے۔ ایسے ہی شیخین کی افضلیت کا حال ہے۔ جو صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس کو بہت سے آئمہ بزرگواران نے جن میں سے ایک امام شافعی ہیں۔ نقل کیا ہے بلکہ تمام صحابہ کرام کو باقی تمام امت پر فضیلت حاصل ہے۔ کیونکہ حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کی فضیلت کے برابر کوئی فضیلت نہیں ۔ وہ تھوڑا سافعل جو اسلام کے ضعف اور مسلمانوں کی کمی کے وقت دین متین کی تائید اور حضرت سید المرسلین کی مدد کے لیے اصحاب کرام سے صادر ہوا ہے دوسرے لوگ عمر بھر ریاضتوں اور مجاہدوں سے طاعتیں بجالائیں تو بھی اس فعل پیر کے برابر نہیں ہو سکتیں ۔ اسی واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی کوہ احد جتنا سونا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے ۔ تو اصحاب کے ایک آدھ مد جو کے خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ اسی واسطے افضل ہیں کہ ایمان میں تمام سابقین میں سے اسبق اور بڑھے ہوئے ہیں اور خدمات لائقہ میں اپنے مال و جان کو بکثرت خرچ کیا ہے اس واسطے آپ کی شان میں نازل ہوا ہے۔

لا يستوى مِنْكُمْ مَّنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتح وَقَاتَلَ أُولَئِكَ اعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ انْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَ عَدَ اللهُ الْحُسْنى ) نہیں برابر تم میں سے وہ لوگ جنہوں نے فتح سے اول خرچ کیا اور لڑائی کی یہ لوگ زیادہ درجہ والے ہیں اور ان لوگوں سے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور لڑائی کی اور اللہ تعالیٰ نے سب کے لیے حسنیٰ یعنی جنت کا وعدہ دیا ہے ) بعض لوگ دوسروں کے بکثرت مناقب و فضائل پر نظر کر کے حضرت صدیق کی افضلیت میں توقف کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اگر افضلیت کا سبب مناقب و فضائل کا بکثرت ہونا ہوتا۔

تو امت کے بعض لوگ جو بہت سے فضائل رکھتے ہیں اپنے نبی سے افضل ہوتے۔ جس میں یہ فضائل نہیں پس معلوم ہوا کہ افضلیت کا باعث ان فضائل اور مناقب کے سوا کچھ اور امر ہے اور وہ امر اس فقیر کے خیال میں دین کی سب سے بڑھ کرتائید کرنی اور دین رب العلمین کے احکام کی مدد میں سب سے زیادہ مال و جان کا خرچ کرنا ہے۔ چونکہ پیغمبر ہی تمام امت سے اسبق ہے۔ تمام مسبوقوں سے افضل ہے۔

اسی طرح جو شخص ان امور میں اسبق ہے تمام مسبوقوں سے افضل ہے سابق یعنی پہلا شخص گویا امر دین میں لاحقوں یعنی پچھلوں کا استاد و معلم ہے۔ لاحقین سابقین کے انوار سے فائدہ حاصل کرتے ہیں اور ان کی برکات سے فیض پاتے ہیں۔ اس امر میں چونکہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اس دولت اعلیٰ کے مالک حضرت صدیق ہی ہیں جو دین کی کی تائید اور حضرت سید المرسلین صلى الله عليه وسلم کی مدد اور فساد کے رفع کرنے کے لیے لڑائی جھگڑے کرنے اور مال و جان کے خرچ کرنے اور اپنی عزت و جاہ کی پروا نہ کرنے میں تمام سابقین میں سے اسبق اور بڑھے ہوئے ہیں۔ اس لیے دوسروں سے افضلیت انہی پر مسلم ہوگی اور چونکہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کی عزت و غلبہ کے لیے حضرت فاروق کی مدد طلب کی ہے اور حق تعالیٰ نے عالم اسباب میں اپنے حبیب کی مدد کے لیے انہی کو کافی سمجھا ہے۔


اور فرمایا ہے ۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (اے تي تجھے اللہ تعالی اور تابعدار مومن کافی ہیں ) ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا ہے کہ اس آیت کا سبب نزول حضرت فاروق کا سلام ہے۔ اس لیے حضرت صدیق کے بعد حضرت فاروق کی افضلیت مقرر ہے۔ اسی واسطے ان دو بزرگواروں کی افضلیت پر صحابہ و تابعین کا اجماع ہو چکا ہے ۔ جیسے کہ گزر چکا۔ حضرت امیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر اسلام میں سب ے افضل ہیں۔ جو کوئی مجھے ان پر فضیلت دے وہ مفتری ہے میں اس کو اتنے تازیانہ لگاؤں گا جتنے مفتری کو لگاتے ہیں۔ اس بحث کی تحقیق فقیر کی کتابوں و رسالوں میں بار ہا مفصل درج ہو چکی ہے۔ اس مقام میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ۔

وہ شخص بہت ہی بیوقوف ہے جو اپنے آپ کو حضرت خیر البشر صلى الله عليه وسلم کے اصحاب کے برابر سمجھے اور وہ شخص اخبار و آثار سے جاہل ہے جو اپنے آپ کو سابقین میں سے تصور کرے، لیکن اتنا جاننا ضروری ہے کہ یہ سبقت کی دولت جو افضلیت کا باعث ہے۔ قرآن اول ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ جو حضرت خیر البشر صلى الله عليه وسلم کی شرف صحبت سے مشرف ہے۔ دوسرے قرنوں میں یہ امر مفقود ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بعض قرنوں کے لاحق دوسرے قرنوں کے سابقین سے افضل ہوں ۔

بلکہ ایک قرن میں بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن کا لاحق اس قرن کے سابق سے افضل ہو حق تعالٰی طعن لگانے والوں کو بینائی عطا کرے تا کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ صرف وہم و خیال سے کسی مومن و مسلم کو طعن و ملامت کرنا اور محض تعصب و کجروی سے اس کی تکفیر تعلیل کا حکم کرنا کیسا برا ہے۔ اور اگر وہ شخص تکفیر وتصلیل کے قابل نہ ہوا تو پھر کیا علاج کریں گے۔ جبکہ وہ کفر و ضلال کہنے والے کی طرف راجع ہو گا اور تہمت زدہ کی طرف سے ہٹ کر تہمت لگانے والے پر جا پڑے گا۔ جیسا کہ حدیث نبوی میں آچکا ہے۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَاسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (یا اللہ تو ہمارے گناہوں اور کام میں ہماری زیادتیوں کو بخش اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھ اور کافروں پر ہمیں مدد دے ) اب ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں اور شق ثانی کو بیان کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر اس حال والے کے حق میں طعنہ لگانے والوں کا یہ اعتقاد اور اعتماد نہ ہو اور اس کا معاملہ کفر تک نہ پہنچائیں۔ تو پھر بھی دو حال سے خالی نہیں۔

یعنی اگر اس کے واقعہ کو کذب و بہتان پر حمل کرتے ہیں تو یہ بھی ایک مسلمان کی نسبت بدظنی ہے۔ جو شرع میں منع ہے اور اگر اس کو کاذب بھی نہیں جانتے اور اس کو شرکت مساوات کا معتقد بھی نہیں سمجھتے تو پھر طعن و ملامت کی وجہ کیا ہے۔ پھر اس کی تشفیع عیب جوئی حرام ہے۔ واقعہ صادقہ کو نیک وجہ پرمحمول کرنا چاہئے ۔

نہ یہ کہ صاحب واقعہ کی قباحت و برائی بیان کی جائے اور اگر یہ کہیں کہ اس قسم کے شرانگیز احوال کے اظہار کرنے کی وجہ کیا ہے ۔ تو میں کہتا ہوں کہ اس قسم کے احوال مشائخ طریقت سے بہت ظاہر ہوئے ہیں۔ حتی کہ ان کی عادت مستمرہ ہو چکی ہے۔ لَيْسَ هَذَا أَوَّلَ قَارُوْرَةٍ كُسِرَتْ فِي الْإِسلام ( یہ پہلا شیشہ نہیں جو اسلام میں تو ڑا گیا ہے ) ان سے اس قسم کے اموال کا ظاہر ہونا ارادہ صادقہ اور حقانی نیت کے بغیر نہ ہوگا۔ کبھی ان احوال کے لکھنے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ شیخ طریقت کے سامنے اپنے احوال موہومہ کا اظہار ہو تا کہ وہ حال کا صحت و سقم بیان فرمائے اور اس کی تاویل و تعبیر پر اطلاع بخشے۔ کبھی ان احوال کے لکھنے سے طالبوں اور شاگردوں کی ترغیب و تحریص مطلوب ہوتی ہے۔ کبھی ان سے مقصود نہ یہ ہوتا ہے نہ وہ بلکہ مجر دسکر اور غلبہ حال اس گفتگو پر لے آتا ہے تا کہ چند باتیں کر کے نفس کو راست کر نے جس شخص کا مقصود ان احوال کے اظہار سے شہرت وقبول خلق ہو۔ تو وہ جھوٹا مدعی ہے اور یہ احوال اس کے لیے وبال اور استدراج میں جس میں اس کی سراسر خرابی ہے ۔

رَبَّنَا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ (یا الہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما تو بڑا بخشنے والا ہے) وَمَا أُبَرِىءُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَارَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رحیم ( میں اپنے نفس کو پاک بیان نہیں کرتا۔ نفس برائی کی طرف بہت امر کر نے والا ہے ۔ ہاں جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ۔ بیشک میرا رب بخشنے والا اور مہر بان ہے )۔


آپ نے پوچھا تھا کہ کیا باعث ہے۔ کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء علیہم الرضوان دنیا میں اکثر بلا و مصائب اور رنج و تکلیف میں مبتلا گرفتار ر ہے ہیں ۔ جیسے کہ کہا گیا ہے۔ اسد النَّاسِ بَلاءُ الأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الأَوْلِيَاءُ ثُمَّ الْأمْثَلُ فَالا مثل (لوگوں میں زیادہ بلاو آزمائش میں مبتلا ہونے والے انبیاء ہیں پھر اولیا، پھر ان کے ہم مثل پھر ان کے ہم مثل ) اور حق تعالیٰ اپنی کتاب مجید میں فرماتا ہے ۔ مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ ( جو مصیبت تم پر آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہوتی ہے ) اس آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ جو شخص زیادہ برائیاں کرے اس پر زیادہ مصیبتیں آتی ہیں تو چاہئے کہ پہلے انبیا ، اور اولیاء کے سوا اور لوگ بالا و مصیبت میں گرفتار ہوں اور پھر اولیاء و انبیاء اور نیز یہ بزرگوار اصالت و تبعیت کے طور پر حق تعالیٰ کے محبوب اور اس کے خواص مقربین ہیں ۔ حق تعالٰی اپنے محبوبوں اور خواص مقر بوں کو بلیات ورنج کے حوالے کیوں کرتا ہے اور دشمنوں کو نا زنعمت میں اور دوستوں کو رنج و مصیبت میں کیوں رکھتا ہے۔

جواب: اللہ تعالیٰ آپ کو سعادت مند کرے اور سیدھے راستہ کی ہدایت دے آپ کو واضح ہو که دنیا نعمت ولذت کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ آخرت ہی ہے۔ جو نعمت ولذت کے لیے تیار کی گئی ہے۔ چونکہ دنیا اور آخرت ایک دوسرے کی سوکن و ضد و نقیض ہیں ۔ اور ایک کی رضامندی میں دوسرے کی ناراضگی ہے۔ اس لیے ایک میں لذت پانا دوسرے میں رنج والم کا باعث ہوگا۔ پس انسان جس قدر دنیا میں لذت و نعمت کے ساتھ رہے گا اس قدر زیادہ رنج والم آخرت میں اٹھائے گا۔ ایسے ہی جو شخص دنیا میں زیادہ تر رنج والم میں مبتلا ہوگا آخرت میں اس قدر زیادہ ناز نعمت میں ہو گا۔ کاش دنیا کی بقا کو آخرت کی بقا کے ساتھ وہی نسبت ہوتی جو قطرہ کو دریائے محیط کے ساتھ ہے۔ ہاں متناہی کو غیر متناہی کے ساتھ کیا نسبت ہوگی ۔ اسی لیے دوستوں کو اپنے فضل وکرم سے اس جگہ کی چند روزہ محنت و مصیبت میں مبتلا کیا تا کہ دائگی ناز و نعمت میں محظوظ ومسرور فرمائے اور دشمنوں کو مکر واستدراج کے بموجب تھوڑی سی لذتوں کے ساتھ محفوظ کر دیا تا کہ آخرت میں بیشمار رنج والم میں گرفتار ہیں ۔
سوال: کافر فقیر جود نیاو آخرت میں محروم ہے دنیا میں اس کا دردمند و مصیبت زدہ رہنا آخرت میں لذت و نعمت پانے کا باعث نہ ہوا۔ اس کی کیا وجہ ہے۔

جواب: کا فر خدا کا دشمن اور دائی عذاب کا مستحق ہے۔ دنیا میں اس سے عذاب کا دور رکھنا اور ا کو اپنی وضع پر چھوڑ دینا اس کے حق میں معین ناز و نعمت ولذت ہے۔ اسی واسطے کافر کے حق میں دنیا پر جنت کا اطلاق کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ دنیا میں بعض کفار سے عذاب بھی رفع کر دیتے ہیں اور لذت بھی دیتے ہیں اور لذت و نعمت بھی دیتے ہیں اور بعض سے صرف عذاب ہی ہٹا ر کھتے ہیں اور لذت و نعمت کچھ نہیں دیتے۔ بلکہ فرصت و مہلت کی لذت اور عذاب کے دور ہونے پر کفایت کرتے ہیں ۔ لِكُلِّ ذَالِکَ حِكُمْ وَ مَصَالِحُ ( ہر ایک کے لیے کوئی نہ کوئی حکمت و بہتری ہے)۔

سوال: حق تعالیٰ سب چیزوں پر قادر ہے اور توانا ہے کہ دوستوں کو دنیا میں بھی لذت و نعمت بخشے اور آخرت میں بھی ناز و عمت کرامت فرمائے اور ان کے حق میں ایک کا لذت پانا دوسرے مکتوبات امام ربانی میں دردمند ہونے کا باعث نہ ہو ۔ اس کے جواب کتنی ہیں ۔ ایک یہ کہ دنیا میں جب تک چند روزہ محنت و بلیات کو برداشت نہ کرتے تو آخرت کی لذت و نعمت کی قدر نہ جانتے اور دائی صحت و عافیت کی نعمت کی قدر نہ جانتے اور دائی صحت و عافیت کی نعمت کو کما حقہ معلوم نہ کر سکتے ، کیونکہ جب تک بھوک نہ ہو طعام کی لذت نہیں آتی اور جب تک مصیبت میں مبتلا نہ ہوں فراغت و آرام کی قدر معلوم نہیں ہوتی ۔ گویا ان کی چند روزہ مصیبتوں سے مقصود یہ ہے کہ ان کو دائمی ناز و نعمت کامل طور پر حاصل ہو ۔ یہ ان لوگوں کے حق میں سراسر جمال ہے۔ جوعوام کی آزمائش کے لیے جلال کی صورت میں ظاہر ہوا ہے ۔ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا اکثر کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور اکثر کو ہدایت دیتا ہے )۔


جواب دوم : بلیات وشن اگر چه عوام کے نزدیک تکلیف کے اسباب ہیں لیکن ان بزرگواروں کے نزد یک جو کچھ جیل مطلق کی طرف سے آئے۔ ان کی لذت و نعمت کا سبب ہے۔ یہ لوگ بلیتوں سے ویسے ہی لذت حاصل کرتے ہیں جیسے کہ نعمتوں سے بلکہ بلایا سے زیادہ محفوظ ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں محبوب کی خالص مراد ہے اور نعمتوں میں یہ خلوص نہیں ہے کیونکہ نفس نعمتوں کو چاہتا ہے اور بلاؤ مصیبتوں سے بھاگتا ہے۔ پس بلا ان بزرگواروں کے نزدیک عین نعمت ہے اور اس میں نعمت سے بڑھ کر لذت ہے۔ وہ حظ جو ان کو دنیا میں حاصل ہے۔ وہ بلیات ومصائب ہی کے باعث ہے۔ اگر دنیا میں یہ نمک بھی نہ ہوتا تو ان کے نزدیک جو کے برابر بھی قیمت نہ رکھتی اور اگر اس میں یہ حلاوت نہ ہوتی تو ان کو عبث و بے فائدہ دکھائی دیتی۔ بیت
غرض از عشق توام چاشنئے درد و غم است
ور نه زیر فلک اسباب مهم چه کم است

ترجمه عشق سے تیرے غرض ہے چاشنی دردو غم
ورنہ نیچے آسمان کے کونسی نعمت ہے کم

حق تعالیٰ کے دوست دنیا میں بھی متلذذ ہیں اور آخرت میں بھی محفوظ و مسرور ہیں ۔ ان کی یہ دنیاوی لذت ان کی آخرت کی لذت کے مخالف نہیں وہ خط جو آخرت کے حظ کے مخالف ہے اس سے مختلف ہے جو عوام کو حاصل ہے۔ الہی یہ کیا ہے۔ جو تو نے اپنے دوستوں کو عطا فرمایا ہے کہ جو کچھ دوسرے کے رنج والم کا سبب ہے وہ ان کی لذت کا باعث ہے اور جو کچھ دوسروں کے لیے زحمت ہے ان کے واسطے رحمت ہے۔ دوسروں کی قیمت ان کی نعمت ہے لوگ شادی میں خوش ہیں اور یخنی میں غمناک ۔ یہ لوگ شادی میں بھی اور غم میں بھی خوش و خرم ہیں کیونکہ ان کی نظر افعال جمیل۔ رذیلہ کی خصوصیتوں سے اٹھ کر ان افعال کے فاعل یعنی جمیل مطلق کے جمال پر جا لگی ہے اور فاصل کی محبت کے باعث اس کے افعال بھی ان کی نظروں میں محبوب اور لذت بخش ہو گئے ہیں ۔ جو کچھ جہان میں فاضل جمیل کی مراد کے موافق صادر ہو ۔ خواہ رنج وضرر کی قسم سے ہو۔ وہ ان کے محبوب کی مین مراد ہے اور ان کی لذت کا موجب ہے خداوندا یہ کیسی فضل و کرامت ہے کہ ایسی پوشیدہ دولت اور خوشگوار نعمت اغیار کی نظر بد سے چھپا کر اپنے دوستوں کو تو نے عطا فرمائی ہے اور ہمیشہ ان کو اپنی مراد پر قائم رکھ کر محفوظ و متلذذ کیا ہے اور کراہت و تامل جو دوسروں کا نصیب ہے ۔

ان بزرگواروں سے دور کر دیا ہے۔ اور رنگ و رسوائی کو جو دوسروں کا عیب ہے اس گروہ کا جمال و کمال بنایا ہے۔ یہ نامرادی ان کی عین مراد ہے اور ان کا یہ دنیاوی التذاذ وسرور دوسروں کے برعکس آخرت کے حظوظ کی ترقیوں کا باعث ہے۔ ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (ي اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے )۔ جواب سوم : یہ ہے کہ یہ دار دار ابتلاء و آزمائش ہے۔ جس میں حق باطل کے ساتھ اور جھوٹا سچے کے ساتھ ملا جلا ہے۔ اگر دوستوں کو بلاؤ محنت نہ دیتے اور صرف دشمنوں کو دیتے تو دوست دشمن کی تمیز نہ ہوتی اور اختیار و آزمائش کی حکمت باطل ہوتی۔ یہ امر ایمان غیب کے منافی ہے۔ جس میں دنیاو آخرت کی سعادتیں شامل ہیں ۔

آیت کریمہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ( غیب پر ایمان لاتے ہیں ) اور آیت کریمہ وَ ليَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِی عَزِیز ( اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو شخص اس کی اور اس کے رسول کی غائبانہ مدد کرتا ہے۔ بیشک اللہ تعالی طاقتور اور غالب ہے ) اسی مضمون کی رمز ھے۔ پس دشمنوں کی آنکھ میں خاک ڈال کر دوستوں کو بھی محنت و بلا میں مبتلا کیا ہے تا کہ ابتلا و آزمائش کی حکمت تمام ہو اور دوست مین بلا میں لذت پائیں اور دشمن دل کے اندھے خسارہ اور گھاٹا کھا ئیں يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا (اکثر کو گمراہ کرتا ہے اور اکثر کو ہدایت دیتا ہے )

انبیاء علیہم السلام کا معاملہ کفار کے ساتھ اسی طرح ہوا ہے کہ کبھی اس طرف کا غلبہ ہوا ہے اور کبھی اس طرف کا جنگ بدر مید اسلام کو فتح ہوئی اور جنگ احد میں کافروں کو غلبہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ إِنَّ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَ تِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَ أولُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وَ لِيُمَحِّصَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ يَمُحَقَ الْكَافِرِينَ (اگر تم کو زخم لگا ہے تو پہلے بھی لوگوں کو ایسے ہی زخم لگے ہیں اور ان دنوں کو اللہ تعالیٰ لوگوں میں بدلاتے رہتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو جدا کر لے اور تم میں سے گواہ بنا لے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو نہیں دوست رکھتا اور اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو خالص کرے اور کافروں کو مٹادے)۔ جواب چہارم: یہ ہے کہ حق تعالی سب چیزوں پر قادر ہے اور طاقت رکھتا ہے کہ دوستوں کو یہاں بھی ناز و نعمت عطا فرمائے اور وہاں بھی۔ لیکن یہ بات حق تعالی کی حکمت و عادت کے برخلاف ہے۔ حق تعالی دوست رکھتا ہے کہ اپنی قدرت کو اپنی حکمت و عادت کے نیچے پوشید و رکھے اور اسباب و علل کو اپنے جناب پاک کا روپوش بنائے پس دنیا و آخرت کے باہم نقیض ہونے کے باعث دوستوں کے لیے ، کیا کی محنت و بالا ہو تاہ کررہی ہے تا کہ آخرت کی نعمتیں ان کے حق میں خوشگوار ہوں یہی مضمون اصل 10 کے جواب میں پہلے، کہ ہم پڑتا ہے۔ اب ہم پھر اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور اصل سوال کا جواب دیتے اور کہتے ہیں کہ درد و بلا و مصیبت کا سبب اگر چہ گناہوں اور برائیوں کا کرتا ہے، لیکی در حقیقت بلاہ مصیبت ان برائیوں کا کفارہ اور ان گناہوں کے ظلمات کو دور کرنے والی ہیں ۔ پس کرم یہی ہے کہ دوستوں کو زیادہ زیادہ باا ومحنت میں تا کہ ان کے گناہوں کا کفارہ اور ازالہ ہو ۔ دوستوں کے گناہوں اور برائیوں کو دشمنوں کے گناہوں اور برائیوں کی طرح نہ خیال کریں۔ آپ نے حَسَنَاتُ الابْرَار سَيِّئَاتُ الْمُقَرَّبين سنا ہوگا اور اگر ان سے گناہ و عصیان بھی صادر ہو تو اور لوگوں کے گناہ عصیان کی طرح نہ ہوگا بلکہ وہ سہو و نسیان کی قسم سے ہوگا اور عوام وجد سے پاک ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و لقد عهدنا الى ادم من قبل فنسي ولم تجد له غزما (ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد کیا تھا لیکن اس نے بھا دیا اور ہم نے اس کا کوئی مرام قصد نہ پایا ) پس در دو مصائب کا زیادہ ہوتا برائیوں کے زیادہ کفارہ ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ کہ برائیوں کے زیادہ کمانے پر ۔ دوستوں کو زیادہ بلا دیتے ہیں تا کہ ان کے گناہوں کا کفار دکرنے ان کو پاکیزہ لے جائیں اور آخرت کی محنت سے ان کو محفوظ رھیں ۔ منقول ہے کہ آنحضرت ملی سکرات موت کے وقت جب حضرت فاطمہ نے ان کی بیقراری و بے آرامی پیمی تو النت فاطمہ زہرا بھی جن کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے الفاطمة بضعة منى (فاطمہ یہ بکر و نغزات ) فرمایا تھا۔ کمال شفقت و مہربانی سے جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ساتھ رکھتی تھیں ۔ نہایت بے قرار ہے آرام ہو گئیں ۔ جب آنحضرت نے ان کی اس بیقراری و بے آرامی کو دیکھا تو حضرت زہرائی تسلی کے لیے فرمایا کہ تیرے باپ کے لیے یہی ایک محنت و تکلیف ہے اس سے آگے کوئی تکلیف ، مصیبت نہیں۔ یہ کس قدر اعلیٰ دولت ہے کہ چند روز ہ محنت کے عوض دائمی سخت عذاب دور ہو جائے۔ ایسا معاملہ دوستوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ اس طرح نہیں کرتے اور ان کے گناہوں کا کفارہ کما حقہ اس جگہ نہیں فرماتے بلکہ ان کی جزا آخرت پر ڈال ، پیتے ہیں۔

پس ثابت ہوا کہ دوست ہی دنیادی رنج و بلا کے زیادہ مستحق ہیں اور دوسرے لوگ اس دولت کے لائق نہیں کیونکہ ان کے گناہ کبیرہ ہیں اور التجا و تضرع واستغفار وانکسار سے بے بہرہ ہیں اور گناہوں کے کرنے پر دلیر ہیں اور ارادہ و قصد سے گناہ کرتے ہیں جو تمر دوسرکشی سے خالی نہیں اور عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ہنسی اڑائیں اور انکار کریں اور جزا گناہ کے اندازہ کے موافق ہے۔ اگر گناہ دنیاوی خفیف ہے اور گناہ کرنے والا بھی التجا وزاری کرنے والا ہے تو اس گناہ کا کفارہ د نیادی بلاور نج سے ہو جائے گا اور اگر گناہ غلیظ وشدید تنقیل ہے اور گناہ کرنے والا سرکش دستکبر بھی ہے تو وہ جرم آخرت کی جزا کے لائق ہے جو گناہ کی طرح شدید اور دائی ہے وَ ما ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِن كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ اللَّہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ آپ نے لکھا تھا کہ لوگ جنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ اپنے دوستوں کو بلا و محنت کیوں دیتا ہے اور ہمیشہ ناز نعمت میں کیوں نہیں رکھتا اور اس گفتگو سے اس گروہ کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔

کفار بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں اس قسم کی باتیں کہا کرتے تھے کہ مَالِهَذَ الرَّسُولِ يَا كُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْ لَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكَ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا أَوْ يُلْقَى إِلَيْهِ كَنْرُ اَوْتَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ( یہ رسول کیسا ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے کیوں نہیں اس پر فرشتہ اتر تا تاکہ اس کے ساتھ ہو کر لوگوں کو ڈرا تا ۔ یا اس کو خزانہ دیا جاتا۔ یا اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس سے کھایا کرتا ) ایسی باتیں وہی شخص کرتا ہے جس کو آخرت اور اس کے دائمی عذاب و ثواب کا انکار ہو اور دنیا کی چند روزہ فانی لذتیں ان کی نظر میں بڑی عزیز اور شاندار دکھائی دیتی ہیں۔ کیونکہ جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے ثواب و عذاب کو دائی جانتا ہے۔ دنیاوی چند روزہ فانی بلاو محنت اس کو بیچ نظر آتی ہیں ۔

بلکہ اس چند روزہ محنت کو جس سے ہمیشہ کی راحت حاصل ہو، عین راحت تصور کرتا ہے اور لوگوں کی گفتگو پر نہیں جاتا۔ درد و بلاد محنت کا نازل ہونا محبت کا گواہ عادل ہے کور باطن اور بیوقوف لوگ اگر اس کو محبت کے منافی جائیں تو جائیں۔ جاہلوں اور ان کی گفتگو سے روگردانی کے سوا اور کوئی علاج نہیں۔

فَاصْبِرُ صَبْرًا جَمِيلاً (پس اچھا صبر کر ) اصل سوال کا دوسرا جواب یہ ہے که بلا تازیانہ محبوب ہے جس کے ذریعے محبت اپنے محبوب کے ماسواء کی التفات سے ہٹ کر کلی طور پر محبوب کی پاک بارگاہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ پس در دو بلا کے لائق دوست ہی ہیں اور یہ بلا اس برائی کا کفارہ ہے کہ ان کا التفات ماسوا کی طرف ہے اور دوسرے لوگ اس دولت کے لائق نہیں ان کو زور سے محبوب کی طرف کیوں لائیں جس کو چاہتے ہیں مارلوٹ کر بھی محبوب کی طرف لے آتے ہیں اور اس کو محبوبیت سے سرفراز فرماتے ہیں اور جس کو محبوب کی طرف لا نا نہیں چاہتے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر سعادت ابدی اس کے شامل حال ہوگئی تو تو بہ وانابت کی راہ سے ہاتھ پاؤں مار کر فضل و عنایت کی امداد سے مقصد تک پہنچ جائے گاور نہ وہ جانے اور اس کا كام اللَّهُمَّ لَا تَكِلْنِى إِلَى نَفْسَى طَرْفَةَ عَيْنٍ (یا اللہ تو مجھے ایک لحظہ بھی اپنے حال پر نہ چھوڑ ) پس معلوم ہوا کہ کہ مریدوں کی نسبت مرادوں پر زیادہ بلا آتی ہے۔ اسی واسطے آنحضرت نے جو مرادوں اور محبوبوں کے رئیس ہیں ۔

فرمایا ہے کہ ما اُو ذِي نَبِي مِثْلَ مَا أَوْ ذِيْتُ کسی نبی کو اتی ایدا نہیں پہنچی جتنی مجھے پہنچی ہے۔ گو یا بلاد لالہ اور رہنما ہے۔ جو اپنی حسن دلالت سے ایک دوست کو دوسرے دوست تک پہنچا دیتی ہے اور دوست کو ماسوی کے التفات سے پاک کر دیتی ہے۔ عجیب معاملہ ہے کہ دوست کروڑ ہا دیکر بلا کو خریدتے ہیں اور دوسرے لوگ کروڑ ہا دیکر بلا کو دفع کرنا چاہتے ہیں۔ سوال : کبھی ایسا ہوتا ہے تا ہے کہ درد و بلا کے کے وقت دوستوں سے بھی اضطراب و کراہت مفہوم ہوتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے۔


جواب یہ اضطراب و کراہت تقاضائے بشری ضروری ہے اور اس کے باقی رکھنے میں کئی طرح کی حکمتیں اور صلحتیں ہیں ۔ کیونکہ اس کے بغیر نفس کے ساتھ جہاد و مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ آپ نے سنا ہوگا کہ دین و دنیا کے سردار علیہ الصلوۃ والسلام سے سکرات موت کے وقت کس قسم کی بیقراری و بے آرامی ظاہر ہوئی تھی۔ وہ گو یا نفس کے جہاد کا بقیہ تھا تا کہ حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ والسلام کا خاتمہ خدا کے دشمنوں کے جہاد پر ہو۔

شدت مجاہدہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ صفات بشریت کے تمام مادے دور ہو جا ئیں اور نفس کو کمال فرمانبردار بنا کر اطمینان کی حقیقت تک پہنچا ئیں اور پاک و پاکیزہ رکھیں۔ گو یا بلا باز ارمحبت کی دلالہ ہے اور جو کوئی محبت نہیں رکھتا اس کو دلالہ سے کیا کام ہے اور دل لگی اس کے کس کام آئے گی اور اس کے نزدیک کیا قدرو قیمت رکھے گی درد و بلا کی دوسری وجہ یہ ہے کہ محبت صادق اور مدعی کا ذب کے درمیان تمیز ہو جائے اگر صادق ہے۔

تو بلا کے آنے سے متلذذو محظوظ ہو گا اور اگر مدعی کا ذب ہے تو بلا سے کراہت ورنج اس کو نصیب ہوگا۔ سوائے صادق کے اس تمیز کو کوئی نہیں معلوم کر سکتا۔ صادق ہی کراہت والم کی حقیقت کو کراہت والم کی صورت سے جدا کر سکتا ہے اور صفات بشریت کی حقیقت کو صفات بشریت کی صورت سے الگ کر سکتا ہے۔ واللہ سُبحَانَهُ الْهَادِي إِلَى سَبِيلِ الرَّشَادِ ( الله تعالیٰ ہی راہ راست کی طرف ہدایت کرنے والا ہے )۔

نیز آپ نے پوچھا ہے۔ کو عدم کو لاشے محض کہتے ہیں پس اس کا وجود نہ ہوگا اور جب اس کے وجود نہ ہوا تو پھر اس وجود کیساتھ جوڑ بن میں پیدا ہو۔ اس کے آثار و تر قیاں کس طرح ہوں گی اور اگر ہوں گی بھی تو ذہنی ہوں گی ۔ دائرہ خیال سے کس طرح نکل سکتی ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عدم اگر چہ لاشے ہے لیکن اشیاء کا یہ سب کا رخانہ اسی عدم کے ساتھ قائم ہے اور اشیاء کی تفصیل و کثرت کا منشاء اس کا آئینہ ہے۔

اسماء الہی کی علمیہ صورتوں نے جو عدم کے آئینہ میں منعکس ہوئی ہیں اس کو متمیز کر دیا ہے اور ثبوت علمی بخشا ہے اور اس کو محض لاشے ہونے سے نکال کر آثار و احکام کا مبدء بنا دیا ہے۔ یہ آثار و احکام خانہ علم کے باہر بھی موجود ہیں اور مرتبہ حس و ہ ہم میں بھی ثابت ہیں۔ چونکہ انہوں نے حق تعالیٰ کی مضبوط صنعت ہونے کے باعث اس مرتبہ میں ایسا ثبات و استقرار پیدا کرلیا ہے کہ حس و ہ ہم کے زوال سے بھی زائل نہیں ہو سکتے ۔ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ یہ آثار و ا حام خارجی ہیں۔ آپ عدم کی ترقیوں سے کیوں تعجب کرتے ہیں۔ موجودات کا یہ سب کر و فر زیب وزینت عدم پر مبنی ہے۔ آپ کو حق تعالیٰ کی کمال قدرت کا مشاہد کرنا چاہئے ۔ جس نے عدم سے اس قسم کا لمبا چوڑا کارخانہ بنا دیا ہے اور وجود کے کمالات کو اس کی نقیضوں اور ضدوں سے ظاہر فرمایا ہے۔ عدم کی ترقی کا راستہ کامل طور پر واضح ہے کہ اساء الہی کی علمیہ صورتیں اس کی حجر میں متمکن اور اس کے ساتھ ہم بستر اور ہم بغل ہیں۔ صورت سے حقیقت کی طرف اور ظلال سے اصل کی طرف سیدھی شاہراہ جاتی ہے کوئی اندھا ہی ہوگا جس کو نظر نہ آتا ہو گا ۔

ان هذهِ تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلاً ( یہ بڑی نصیحت ہے ۔ اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف راستہ نکال لے ) ذہن و خیال کا لفظ آپ کو شبہ میں نہ ڈال دے اور آثار و ترقیات کو آپ کی نظر میں مشکل نہ کر دے کیونکہ کوئی معاملہ علم وخیال سے باہر نہیں ہے۔ ہاں خیال خیال میں فرق ہے مرتبہ وہم و خیال میں خلق ہونا اور امر ہے اور وہم و خیال کا اختراع اور امر صورت اول نفس الامری اور حقیقی ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ موجود خارجی بھی ہے اور صورت دوم اس دولت اور اس ثبات و استقرار سے بے بہرہ ہے۔

عدم کے بعض ہنر معرفت کے بیان میں علیحدہ لکھے ہیں ۔ جن کی نقل محبت اللہ لے گیا ہے۔ اگر زیادہ ذوق ہو تو وہاں سے ملاحظہ کر لیں۔ نیز آپ نے فنا و بقا کی نسبت پوچھا تھا۔ اس فقیر نے ان کلمات کے معنی اپنی کتابوں اور رسالوں میں جا بجا لکھتے ہیں ۔

ان کو دیکھنے کے بعد بھی اگر کچھ پوشیدگی رہ گئی ہو تو اس کا علان حضور و شفاہ ہے ( خدمت میں حاضر ہونا اور سامنے گفتگو کرنا) پوری پوری حقیقت لکھی نہیں جاسکتی کیونکہ اس کا اظہار صلاح و بہتری سے دور نظر آتا ہے اور اگر پوری پوری حقیقت لکھی جائے اور ظاہر کی جائے تو کوئی اس کو کیا جانے گا اور کیا سمجھے گا۔

فناو بقاشہودی ہے وجودی نہیں، کیونکہ ہندہ نا چیز نہیں ہوتا اور حق تعالیٰ کے ساتھ متحد نہیں ہوتا العبدُ عَبْدُ دَائِمَا وَالرَّبُّ رَبِّ سَرَمدًا بندہ بندہ اور خدا خدا ہے ) وہ زندیق ہیں جو فنا و بقا کو وجودی تصور کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ بندہ اپنے وجودی تعینات کو رفع کر کے اپنے اصل کے ساتھ جو تعینات و قیود سے منزہ ہے متحد ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے فانی ہو کر اپنے رب کے ساتھ بقا حاصل کر لیتا ہے جیسے قطرہ اپنے آپ سے فانی ہو کر دریا سے مل جاتا ہے اور اپنی قید کو رفع کر کے مطلق کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے ۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا

أَعَاذَنَا اللهُ سُبْحَانَهُ عَنْ مُعْتَقَدَ اتِهِمُ السُّوءِ ( اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے ایسے برے عقیدے سے بچائے ) فنا کی حقیقت یہ ہے کہ ماسوی اللہ بھول جائے اور حق تعالیٰ کے سوا غیر کی گرفتاری اور تعلق دور ہو جائے اور سینہ اور دل کا میدان اپنی تمام مرادوں اور خواہشوں سے پاک ؛ صاف ہو جائے یہی مقام بندگی کے مناسب ہے اور بقا یہ ہے کہ انفسی آیات کے مشاہدہ کے بعد بندہ اپنے مولا جل شانہ کی مرادوں پر قائم رہے اور حق تعالیٰ کی مرادوں کو عین اپنی مراد میں معلوم کرے۔ نیز آپ نے پوچھا تھا کہ وہ سیر جوانفس کے باہر ہے وہ کونسا ہے۔ کیونکہ عالم خلق اور عالم امر کے دسوں مرتبوں کا سیر اور ہیئت وحدانی کا مسیر جب انفس میں داخل ہے پھر انفس کے ماوراء
کونسا سیر ہے۔


جواب: واضح ہو کہ انفس بھی آفاق کی طرح اسماء الہی کے ظلال ہیں ۔ جب ظل فضل خداوندی سے اپنے آپ کو فراموش کر کے اپنے اصل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے اصل کی محبت پیدا کر لیتا ہے تو الْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ ) آدمی اس کے ساتھ ہوگا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی ) کے موافق اپنے آپ کو بعینہ وہی اصل معلوم کریگا اور اپنے انا کو اسی اپنے اصل پر ڈالے گا۔ اسی طرح چونکہ اس اصل کا اور اصل ہے۔ پس اصل سے اس اصل تک پہنچ جائے گا۔ بلکہ اپنے آپ کو اس اصل کا عین معلوم کرے گا۔ وَ هَلُمَّ جَرًّا إِلَى أَنْ يَبْلُغَ الْكِتَابَ أَجْلَهُ ( یہاں تک کہ کتاب اپنی اجل تک پہنچ جائے ) یہ سیر انفس و آفاق کے ماوراء ہے۔


واضح ہو کہ بعض لوگ میر انفسی کو سیر فی اللہ کہتے ہیں، لیکن وہ سیر جس کا ابھی بیان ہو چکا ہے۔ یہ سیر فی اللہ اور سیر انفسی کے ماوراء ہے، کیونکہ یہ سیر حصولی ہے اور وہ سیر وصولی اور حصول و وصول کے درمیان جو فرق ہے وہ متعدد مکتوبات میں لکھا جا چکا ہے۔ وہاں سے معلوم کر لیں ۔ نیز آپ نے حق تعالیٰ کی ذات وصفات و افعال کے اقرب ہو نے کی نسبت دریافت کیا تھا۔ اس کا بیان بھی حضور کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اس کا لکھنا اچھا نہیں وراگر لکھا بھی جائے تو پھر بھی اس کا سمجھنا مشکل ہے اور اگر حضور میں یعنی سامنے بیان کرنے سے بھی سمجھ میں آ جائے تو غنیمت ہے۔

نیز آپ نے مرتبہ نبوت کے کمالات کی نسبت پوچھا تھا کہ فنا و بقاء تجلی اور تعین کا مبداء ہو۔ سب کمالات ولایات ثلثہ کے مراتب میں ہیں۔ کمالات نبوت کے مراتب میں سیر کس طرح ہے۔

جواب: واضح ہو کہ مراتب عروج میں جب تک کہ مراتب ایک دوسرے سے متمیز ہیں اور ان میں ایک اصل سے دوسرے اصل کی طرف جانا پڑتا ہے۔ یہ سب کمالات دائرہ ولایات میں داخل ہیں جب یہ تمیز بر طرف ہو جاتی ہے اور یہ تفصیل کم ہو جاتی ہے اور معاملہ محض اجمال و بساطت محض سے جا پڑتا ہے تو پھر مرتبہ نبوت کے کمالات شروع ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ میں بھی اگر چہ وسعت ہے۔ إِنَّ الله واسع علیم (اللہ تعالی گھیر نے والا اور جانے والا ہے ) لیکن وہ وسعت اور ہی وسعت ہے اور وہ تمیز ار ہی تمیز ہے۔ اس سے زیادہ کیا کہیں اور کیا سمجھا ئیں ۔ رَبَّنَا ابْنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً وَ هَيَءُ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے ہدایت و بھلائی ہمارے نصیب کر ) نماز کے بعض اسرار جو آپ نے دریافت کیے تھے۔

اس کا جواب کسی دوسرے وقت پر موقوف رکھا ہے۔ کیونکہ اب وقت بہت تنگ ہے۔ زمانہ اور اہل زمانہ سے سرقہ کر کے یعنی چوری چوری اور پوشیدہ کچھ نہ کچھ لکھا جاتا ہے۔ آپ فقیر کے حال پر رحم کریں اور استفسار پر دلیر نہ ہوتے جائیں۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِین یا اللہ ہمارے گناہوں اور ہمارے کام کی زیادتیوں کو بخش اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھ اور کافروں پر ہمیں مدد دے۔ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَوَّلاً وَاخِرًا وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِيَّةُ عَلَى رَسُولِهِ دَائِمًا وَّ سَرْمَدًا وَ عَلَى الهِ الْكِرَامِ وصَحْبِهِ الْعَظَامِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ اوّل وآخر اللہ رب العلمین کا حمد اور اس کا احسان ہے اور اس کے رسول اور ان کی آل بزرگوار اور اصحاب کرام پر قیامت تک ہمیشہ صلوۃ والسلام و تحیت ہو ۔

الحمد لله والمنته که در یں ایام فرخنده فرجام کتاب مستطاب بادی شیخ و شاب منبع فیوض و برکات یعنی مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت خواجہ خواجگان شہباز لا مکان مقبول بارگاه صد حضرت شیخ احمد فاروقی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ