55

مکتوب 96: اس مضمون کے عمل میں کہ پیغمبر ﷺ نے مرض موت میں کاغذ طلب کیا


مکتوب 96

اس مضمون کے عمل میں کہ پیغمبر مولانا نے مرض موت میں کاغذ طلب کیا تا کہ کچھ لکھیں اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے مع چند اصحاب کے اس سے منع کیا خواجہ ابوالحسن بدخشی شمی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔


الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفیٰ اللہ تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ۔

سوال : حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوۃ والسلام نے مرض موت میں کاغذ طلب کیا اور فرمایا که انتونى بِقِرُ طَاسٍ اكْتُبُ لَكُم كتابا لن تَضَلُّوا بَعْدِی ( کاغذ لا ؤ کہ میں کچھ لکھوں تا کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو ) اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہ اور چند اور اصحاب نے منع کیا اور کہا که حسبنا کتاب اللہ ( ہمیں کتاب اللہ کافی ہے ) اور کہا اهَجَرًا اسْتَفْهِمُوهُ ( کیا غشی سے ایسی کلام کرتے ہیں اچھی طرح پوچھو ) حالانکہ حضرت رسالت خه نمیت علیہ الصلوۃ والسلام جو کچھ فرمایا کرتے تھے۔ وجی سے فرمایا کرتے تھے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (وہ خواہش سے کلام نہیں کرتے بلکہ جو کچھ بولتے ہیں وحی کے مطابق بولتے ہیں ) اور وحی کا رد و منع کرنا کفر ہے ۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ مَن لَم يحُكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ جولوگ اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکامکے مطابق حکم نہیں کرتے وہ کافر ہیں ۔ نیز پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام پر ہجر و ہذیان کی کیفیت جائز کرنے سے تمام احکام شرعیہ کا اعتماد دور ہو جاتا ہے اور یہ کفر والحاد وزندقہ ہے۔ اس شبہ قویہ کاحصل کیا ہے۔

جواب : خدا آپ کو سعادتمند کرے اور سیدھے راستہ کی ہدایت دے۔ آپ کو واضح ہو کہ یہ شبہ اور اس قسم کے اور شبہے جو بعض لوگ حضرات خلفاء ثلاثہ رضی اللہ تعالی عنہم اور باقی تمام اصحاب کرام رضی اللہ عنہم پر وارد کرتے ہیں اور اس قسم کی تشکیکات اور شبہات سے ان کو رد کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھیں اور حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کے شرف و رتبہ کو قبول کریں تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کے نفس حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں ہوا اور ہوس سے پاک وصاف ہو چکے تھے اور ان کے سینوں سے عداوت و کینہ نکل چکا تھا تو ان پر واضح ہو جائے گا کہ یہی وہ اسلام اور دین کے بزرگوار ہیں جنہوں نے کلمہ اسلام کے بلند کرنے اور حضرت سیدنا یے کی مرد اور دین متین کی تائید کے لیے رات دن اور ظاہر و باطن میں اپنی طاقتوں اور مالوں کو خرچ کیا ہے اور اپنے خویش و قبیلہ اور اولا د وازواج اور وطن و گھر بار کھیتی کیاری باغ اور انہار وغیر و سب کچھ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی محبت میں چھوڑ دیا تھا اور اپنی جان اور مال و اولاد کی محبت پر رسول اللہ کی محبت کو ترجیح دی تھی۔

ان بزرگواروں نے وحی وفرشتہ کا مشاہدہ کیا تھا اور منجزات و خوارق کو دیکھا تھا۔ ان کا غیب شہادت سے اور ان کا علم عین سے بدل چکا تھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی تعریف اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ان الفاظ کے ہاتھ فرماتا ہے ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ….. ذَالِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ ( اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالی سے راضی ہو گئے۔ تو ریہے وانجیل میں ان کی یہی مثال ہے ) جب تمام صحابہ کرام ان کرامات اور فضائل میں شریک ہیں تو خلفاء راشدین جو تمام صحابہ سے افضل و اعلیٰ ہیں ۔ ان کی فضیلت و بزرگی کس قدر ہوگی ۔ یہی وہ فاروق رضی اللہ عنہ ہیں جن کی شان میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو فرماتا ہے ۔

يَا يُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اے نبی تجھ کو اللہ تعالیٰ اور تیری اتباع کرنے والے مومن کافی ہیں۔


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ اس آیت کریمہ کا شان نزول حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلام ہے۔ نظر انصاف کے ساتھ دیکھنے اور حضرت خیر البشر کی شرف محبت قبول کرنے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درجات کی بلند اور بزرگی معلوم کرنے کے بعد امید ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے اور تشکیکات کی پیروی کرنے والے لوگ ان شبہات کو مغالطوں اور زر سے منڈھی ہوئی خیالی باتوں کی طرح بے اعتبار اور خوار خیال کریں گے او را گران شبہات میں غلطی کو تجویز نہ کریں اور ان کو وہمی اور خیالی باتوں کی طرح نہ سمجھیں تو کم از کم اتنا تو ضرور جان لیں گے کہ ان شبہات اور تشکیکات کا ماحصل پیچ و پوچ ہے ۔

بلکہ اسلامی ہدایت اور ضرورت کے برخلاف ہے اور کتاب وسنت کے مقابلہ میں مردود اور مطرود ہے۔ اس کے علاوہ اس سوال کے جواب اور اس شبہ کی غلط فہمی کے بیان کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے چند مقدموں میں لکھا جاتا ہے۔ غور سے سنیں ۔ اس شبہ واشکال کا کامل طور پر حل کرنا چند مقدموں پر مبنی ہے۔ جن میں سے ہر ایک مقدمہ بجائے خود علیحدہ علیحدہ جواب بھی ہے:۔

مقدمه اول: یہ ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے تمام منطوقات و معقولات یعنی اقوال و گفتار وحی کے مطابق نہ تھے ۔ آیت کریمہ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوى نص قرآنی سے مخصوص ہے جیسے کہ مفسرین نے بیان کیا ہے۔ اگر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے تمام اقوال و گفتار جی کے موافق ہوتے تو حق تعالیٰ کی طرف سے بعض اقوال پر اعتراض وارد نہ ہوتا اور ان سے معافی کی گنجائش نہ ہوتی ۔ اللہ تعالی اپنے نبی صلى الله عليه وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے عفا اللهُ عَنكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمُ اللَّه تعالیٰ تجھے معاف کرے تو نے ان کو کیوں اذن دیا )


مقدمه دوم : یہ کہ احکام اجتہادیہ اور امور عقلیہ میں آیت کریمہ فاعتبرو یا أولی الابصار (اے دانا و عبرت پکڑو ) اور آیت کریمہ و شاوِرُ هُمْ فِي الْأَمْرِ ( کام میں ان سے مشورہ کرلیا کرو) کے بموجب اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ساتھ گفتگو کی گنجائش اور ردو بدل کی مجال تھی۔ کیونکہ اعتبار و مشورہ کا امر کرنا ردو بدل کے حاصل ہونے کے بغیر متصور نہیں ۔ جنگ بدر کے قیدیوں کے قتل اور فدیہ کے بارے میں جب اختلاف واقع ہوا تھا تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے تیل کو تحلیل یہ وہی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو مشورہ کے موافق آئی اور فدیہ لینے پر وعید نازل ہوئی ۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے ۔ لونزَل الْعَذَابُ لَمَا نَجى بِغَيْرِ عُمَرَ وَ سَعْدِ بْنِ مَعَاذِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا (اگر عذاب نازل ہوتا تو عمر وسعد بن معاذ رضی اللہ عنہما کے بغیر کوئی نجات نہ پاتا ) کیونکہ سعد رضی اللہ عنہ نے بھی ان ! قیدیوں کے قتل کا مشورہ دیا تھا۔


مقدمه سوم: یه که سود نسیان پیغمبر پر جائز بلکہ واقع ہے۔ حدیث ذوالیدین میں آیا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے چار رکعتی نماز میں دورکعت کے بعد سلام پھیر دیا۔ ذوالیدین نے عرض اقصرت الصَّلوةَ ام نسیت کیا آپ نے نماز کو قصر کیا ہے یا آپ بھول گئے ۔ ذوالیدین کی صداقت ثابت ہونے کے بعد آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اٹھ کر دو رکعت اور ادا کیں اور سجدہ سہو ادا کیا۔ جب صحت و فراغت کی حالت میں سہو و نسیان بمتقصائے بشریت جائز ہے تو مرض موت میں درد کے غلبہ کے وقت بقضائے بشری آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے بے قصد و بے اختیار کلام کا صادر ہونا کیونکر جائز نہ ہوگا اور احکام شریعہ سے کیوں اعتماد رفع ہو گا ۔ جبکہ حق تعالیٰ نے نبی صلى الله عليه وسلم کو وحی قطعی سے سہو و نسیان پر اطلاع فرمائی ہے اور صواب کو خطا سے الگ کیا ہے۔ کیونکہ نبی کا خطا پر برقرار رہنا جائز نہیں۔ اس لیے کہ اس سے احکام شریعت کا اعتما در فع ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نفس سہو و نسیان اعتماد کے رفع ہونے کا موجب نہیں ہے بلکہ سہو ونسیان پر رقرار رہنا کام شرعیہ کے اعتمادکے رفع ہونے کا باعث ہے ہے اور وہ تقریر علماء کے نزدیک مقررو ثابت ہے کہ جائز نہیں۔

مقدمه چهارم : یه که حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بلکہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے لیے کتاب وسنت میں جنت کی خوشخبری ہے اور وہ احادیث جن میں خاص طور پر ان کے لیے جنت کی بشارت ہے ثقہ راویوں کی کثرت سے شہر ہے بلکہ تو اتر معنی کی حد تک پہنچ چکی ہیں ۔ جن کا انکار کرنا سراسر جہالت ہے یا بغض و عناد ۔ ان صحیح و حسن حدیثوں کے راوی اہل سنت ہیں۔ جنہوں نے اپنے استادوں سے جو سب کے سب اصحاب و تابعین ہیں ۔ اخذ کی ہیں۔ ان کے مقابلہ میں اگر تمام مخالف فرقوں کے راویوں کو جمع کریں۔ تو اہل سنت کے سویں حصہ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔

كَمَا لا يَخْفَى عَلَى الْمُتَبِعِ الْمُتَفَحِصِ الْمُنْصِف (جیسے کہ منصف تابعدار اور جستجو کرنے والے پر پوشیدہ نہیں ) اہل سنت کی تمام کتب احادیث ان بزرگواروں کی بشارات سے بھری ہوئی ہیں ۔ اگر بعض مخالف فرقوں کی کتب احادیث میں بشارات کی روایت نہ بھی ہوتو کچھ غم نہیں کیونکہ بشارات کی روایت کا نہ ہونا تک نہی ہے ہے دلالت نہیں کرتا ۔ ان بزرگواروں کی بشارت

کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ جس کی بہت سی آیات میں ان کے لیے جنت کی خوشخبری آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرِضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّلَهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ مہاجرین اور انصار میں سابقین اولین اور وہ لوگ جنہوں نے احسان سے ان کی تابعداری کی۔ ان سب پر اللہ تعالیٰ راضی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں اور ان کے لیے جنات تیار کی گئی ہیں۔ جن میں نہریں بہتی ہیں۔ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔


اور فرماتا ہے لَا يَسْتَوِى مِنْكُمْ مَنْ أنْفَقَ مَنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِكَ اعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ انْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَّ عَدَ اللَّهُ الْحُسْنَیٰ نہیں برابر تم میں سے وہ شخص جس نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی۔ یہ زیادہ درجہ والے ہیں۔ ان لوگوں سے جنہوں نے فتح کے بعد خرچ کیا اور لڑائی کی اور سب کو اللہ تعالیٰ نے حسنی یعنی بہشت کا وعدہ دیا ہے۔ جب ان تمام صحابہ کے لیے جنہوں نے فتح سے پہلے اور بعد انفاق و مقاتلہ کیا ہے ۔ بہشت کی خوشخبری ہے۔ تو پھر ان بزرگ اصحاب کی نسبت جو انفاق ومقاتلہ ومہاجرت میں سب سے بڑھ کر ہیں کیا کہا جائے اور ان کے درجات کی بلند کو کس طرح معلوم کیا جائے ۔


تمام اہل تفسیر کہتے ہیں کہ آیت کریمہ لا یستوی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے جو انفاق و مقاتلہ میں سب سابقین سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ بیشک اللہ تعالیٰ
راضی ہو گیا۔ مومنین سے جب انہوں نے درخت کے نیچے تیری بیعت کی۔ امام محی السنتہ نے معالم تنزیل میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ہے۔ ان میں سے ایک بھی دوزخ میں نہ جائے گا۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے خوش ہوا ہے اور شک نہیں کہ اس شخص کو کافر کہنا جس کو کتاب وسنت میں بہشت کی خوشخبری مل چکی
ہو ، نہایت ہی برا ہے۔

مقدمه پنجم : : یہ ہے کہ کاغذ کے لانے میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا تو قف پنجم کرناردو انکار کے باعث نہ تھا۔ پناہ بخدا ۔ ایسے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے وزیروں اور ہمنشینوں سے جو خلق عظیم کے ساتھ متصف ہے۔ اس قسم کی بے ادبی متصور بھی کس طرح ہو سکتی ہے۔ بلکہ ادنی صحابی سے جو ایک یا دو بار حضرت خیر البشر صلى الله عليه وسلم کی شرف صحبت سے مشرف ہو چکا ہو۔ اس قسم کی بے ادبی کی امید نہیں ہوسکتی۔ بلکہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی امت کے عام لوگوں سے جو دولت اسلام سے مشرف ہو چکے ہیں۔ اس قسم کے ردوان کار کا گمان نہیں ہوسکتا۔ تو پھر ان لوگوں سے جو بزرگ اور وزیر اور ندیم اور تمام مہاجرین اور انصار میں سے اعلیٰ درجہ والے ہوں، کس طرح اس امر کا خیال پیدا ہو سکتا ہے۔ حق تعالیٰ ان لوگوں کو انصاف دے تا کہ بزرگان دین پر اس طرح کی بدظنی نہ کریں اور بے سوچے سمجھے ہر کلمہ وکلام پر مواخذہ نہ کریں۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مطلب استفہام اور استفسار یعنی اِسْتَفْهِمُوهُ سے یہ تھا کہ اگر یہ آپ کوشش و اہتمام کے ساتھ کا غذ طلب فرما ئیں تو لایا جائے۔ اگر آپ اس بارہ میں کوشش نہ فرمائیں تو ایسے نازک وقت میں آپ کو تکلیف نہ دینی چاہئے ، کیونکہ اگر امر ووحی سے آپ نے کاغذ طلب فرمایا ہے تو تاکید و مبالغہ سے کا غذ طلب فرما ئیں گے اور جو کچھ آپ کو حکم ہوگا لکھیں گے ۔ کیونکہ وحی کی تبلیغ نبی پر واجب ہے۔ اگر یہ مطلب امرووحی سے نہیں ہے بلکہ چاہتے ہیں کہ فکر واجتہاد کی رو سے کچھ لکھیں تو وقت یاوری نہیں کرتا۔ کیونکہ پایہ اجتہاد آپ کے رحلت فرما جانے کے بعد بھی باقی ہے۔ آپ کی امت کے مستنبط اور مجہتد لوگ کتاب اللہ سے جو دین کا اصل اصول ہے ۔ احکام اجتہادیہ کو نکال لیں گے اور جب حضور کی موجودگی میں جو وحی کے نزول کا وقت تھا۔ مستنبطوں اور مجتہدوں کے استنباط و اجتہاد کی گنجائش تھی ۔

تو آپ کے رحلت فرمانے کے بعد جو وتی کے ختم ہونے کا زمانہ ہے علماء کا اجتہاد و استنباط بطریق اولی مقبول ہوگا۔ جب آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اس بارہ میں جد و اہتمام نہ فرمایا بلکہ اس امر سے اعراض فرمایا تو معلوم ہوا کہ آپ کا فرمانا وجی کی رو سے نہ تھا اور وہ تو قف جو مجرد استفسار کے لیے ہو ۔ مذموم نہیں ہے۔


ملائکہ کرام نے حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت کی وجہ دریافت کرنے کے لیے عرض کیا۔ اتَجْعَلُ فِيهَا مِنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نَقَدِّسُ لک کیا تو ایسے شخص کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے جو اس میں فساد کرے گا اور خون کرائے گا اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ اور حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری کے وقت کہا أنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَعَ تِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عَتِيًّا میرے ہاں کس طرح لڑکا ہوگا جبکہ میری عورت بانجھ ہے اور میں از حد بوڑھا ہوں۔
اور حضرت مریم علیہا الصلوٰۃ والسلام نے کہا آنی يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَ لَمْ يَمْسَسْنِي بَشَر وَ لَمُ اكْ بَغِیا میرے ہاں کس طرح لڑ کا ہو گا جب کہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا اور میں نافرمان یعنی بدکار بھی نہیں ہوں ۔


اگر حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی استفسار اور استفہام کے لیے کاغذ کے لانے میں
توقف کیا ہو تو کیا مضائقہ ہے اور کیا شور وشبہ ہے۔


مقدمه ششم: یہ ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی شرف صحبت کے حاصل ہونے کے باعث صحابہ کرام کے ساتھ حسن ظن ضروری ہے اور اس امر کا جاننا بھی ضروری ہے کہ تمام زمانوں سے بہتر زمانہ نبی صلى الله عليه وسلم کا زمانہ تھا اور نبی صلى الله عليه وسلم کے اصحاب انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام بنی آدم سے بہتر تھے تا کہ یقین ہو جائے کہ نبی صلى الله عليه وسلم کے رحلت فرمانے کے بعد بہترین زمانہ میں وہ لوگ جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد تمام بنی آدم سے بہتر ہیں۔ باطل عمل پر اجتماع نہ کریں گئے اور کافروں اور فاسقوں کو حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کے جانشین نہ بنائیں گے اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اصحاب تمام بنی آدم سے بہتر ہیں اس لیے کہا ہے کہ کہ یہ امت نص قرآنی کے ساتھ خیر الامم یعنی تمام امتوں میں سے بہتر ثابت ہو چکی ہے اور تمام امت میں سے بہتر اصحاب کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ کیونکہ کوئی ولی صحابی کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔


پس کچھ انصاف کرنا چاہئے کہ اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کاغذ لانے سے منع کرنا کفر کا باعث ہوتا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ جو نص قرآن کے ساتھ اس بہترین امت میں سے سب سے زیادہ متقی ثابت ہو چکے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تخصیص و تصریح نہ کرتے اور مہاجرین و انصار جن کی تعریف حق تعالیٰ نے اپنے قرآن مجید میں فرمائی ہے اور ان سے راضی ہوا ہے اور ان کو جنت کا وعدہ دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرتے اور پیغمبر کا جانشین نہ بناتے ۔ جب آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی صحبت اور اصحاب کے ساتھ حسن ظن جو محبت کا مقدمہ ہے حاصل ہو جائے تو اس قسم کے شبہات کی تکلیف سے نجات مل جاتی ہے اور ان تشکیکات کا باطل ہونا صاف طور پر نظر آ جاتا ہے اور اگر نعوذ باللہ منہ نبی صلى الله عليه وسلم کی صحت اور اصحاب کے ساتھ حسن ظن پیدا نہ ہو اور بدظنی تک نوبت آ جائے تو یہ بدظنی اس صحبت کے صاحب یعنی صحابہ کرام اور ان اصحاب کے صاحب یعنی پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام تک پہنچ جائے گی بلکہ اس صاحب کے صاحب جل شانہ تک چلی جائے گی۔ اس امر کی برائی کو اچھی طرح معلوم کرنا چاہئے ۔ ما امن برسول من لم يوقر اصحابہ (جس نے اصحاب کی عزت نہ کی اس نے گویا رسول کی تصدیق نہ کی ) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اصحاب کی شان میں فرمایا ہے ۔ مَن أَحَبُّهُمْ فَحْبَى أَحَبَّهُمْ وَ مَنْ ابعضهم فبعضى ابغضهم ( جس نے میرے اصحاب سے محبت کی اس نے گویا میری محبت کی بدولت ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے گویا میرے بغض کے باعث ان سے بغض رکھا ) اصحاب کی محبت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی محبت کا باعث اور اصحاب کا بغض رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بغض کا موجب ہے۔

جب یہ مقدمات معلوم ہو چکے تو بے تکلف اس شبہ کا اور اس قسم کے اور شبہوں کا جواب حاصل ہو گیا۔ بلکہ متعدد اور کئی قسم کے جوابات حاصل ہو گئے ۔ کیونکہ ان مقدمات سے ہر ایک مقدمہ متعدد جوابوں میں سے ایک جواب ہے۔ جیسے کہ گزر چکا ہے اور یہ مقدمات سب کے سب اس شبہ کے مادہ کو توڑ دیتے ہیں اور اس تشکیک کے دفع کرنے میں نظر یعنی دلیل سے حدس یعنی فراست و باریک بینی میں لے آتے ہیں۔ كما لا يخفى عَلَى الْفَطِينِ الْمُنْصِفِ ( جیے کہ دانا منصف پر پوشیدہ نہیں ہے۔ ( حدس کا لفظ صرف زبان پر لایا گیا ہے۔

ورنہ اس قسم کی تشکیکات بدیہی البطلان میں اور وہ مقدمات جو ان شبہات کے باطل کرنے میں لائے گئے ہیں۔ اس ہدایت پر تنصیبات کی قسم ہے ہیں ۔ بلکہ اس قسم کی تشکی کات وشبہات اس فقیر کے نزدیک اس طرح ہیں۔ جس طرح کوئی پرکن شخص چند بیوقوفوں کے پاس آکر ایک پتھر کو جو ان کا محسوس ہے مع اور جھوٹی دلیلوں اور مقدمات سے ان کے سامنے ثابت کر دے کہ یہ سونا ہے اور چونکہ یہ بیچارے ان وہمی مقدمات کے دفع کرنے میں عاجز ہیں اور ان کے غلط ثابت کرنے میں قاصر ہیں اس لیے شبہ میں پڑ جائیں بلکہ یقین کرلیں کہ یہ سونا ہے اور اپنی حس کو فراموش کر دیں بلکہ متہم جانئیں ۔ اس مقام پر دانا کی ضرورت ہے۔

جو اس کی ضرورت پر اعتماد کرے اور وہی مقدمات کو غلط ثابت کرے۔ مذکورہ بالا صورت میں بھی خلفائے ثلثہ بلکہ تمام اصحاب کرام کی بزرگی اور بلندی درجات کتاب وسنت کی رو سے محسوس و مشاہد ہے اور ان بزرگواروں پر طعن کرنے والے جو جھوٹی اور ملمع دلیلوں کے ساتھ ان پر طعن و قدح کرتے ہیں اس پتھر کے حق میں طعن و ملامت کرنے والوں کی طرح بھٹک رہے ہیں اور گمراہ ہو رہے ہیں اور اوروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔


رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً أَنْتَ الْوَهَّابُ يَا اللہ تو ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور اپنی جناب سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ تو بڑا بخشنے والا ہے۔

بائے افسوس ان لوگوں کو کس چیز نے آمادہ کیا کہ اکابر دین کو گالی نکالیں اور اسلام کے بزرگوں پر طعن لگا ئیں ۔ حالانکہ فاسقوں اور فاجروں میں سے کسی کو گالی نکالنا اور طعن لگانا یہ درجہ نہیں رکھتا کہ شرع میں عبادت و کرامت و فضیلت اور نجات کا وسیلہ سمجھا جائے ۔ تو پھر دین کے ہادیوں کو گالی نکالنا اور اسلام کے حامیوں کو طعن لگانا کیا کچھ درجہ رکھتا ہو گا۔ شرع میں کہیں نہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دشمنوں یعنی ابو جہل اور ابولہب وغیرہ کو گالی نکالنا اور طعن لگانا عبادت و کرامت میں داخل ہے۔ بلکہ ان سے اور ان کے احوال سے اعراض کرنا اچھا ہے اور اس قسم کے بیہودہ امور میں مشغول ہونے اور وقت کے ضائع کرنے سے بہتر ہے تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْتَلُونَ عَمَّا كَانُو يَعْمَلُونَ یہ لوگ گزر گئے ۔ ان کے لیے اپنے اعمال اور تمہارے لیے اپنے عمل کام آئیں گے اور تم سے نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کیا کرتے تھے۔


حق تعالی قرآن مجید میں انتخاب پیغمہ کی صف میں رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ فرماتا ہے پس ان بزرگواروں کے حق میں ایک دوسرے کے ساتھ عداوت وکینہ کا گمان کرنا نص قرآنی کے برخلاف ہے نیز ان بزرگواروں میں عداوت و کینہ کا ثابت کرنا فریقین میں قدح وندامت پیدا کرتا ہے اور دونوں گروہوں سے امان کو رفع کرتا ہے۔ جس سے اصحاب کے دونوں گروہوں کا مطعون ہوتا لازم آتا ہے۔ نعوذ باللہ من ذلک اور اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد جولوگ تمام بنی آدم سے بہتر تھے۔ وہ گو یا بدترین مردم تھے اور ان کا بہترین زمانہ بدترین زمانہ تھا اور اس قرن و زمانہ کے لوگ عداوت وکینہ سے موصوف تھے۔

کوئی مسلمان اس بات پر دلیری نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس امر کو پسند کر سکتا ہے۔ یہ کتنی بڑی گستاخی اور جرات ہے خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کو حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دشمنی ہو اور حضرت امیر ان کے پوشیدہ دشمن رہیں۔ اس امر میں طرفین کی ندامت و ملامت ہے۔ کیوں نہ ہم یوں کہیں کہ آپس میں شیر وشکر اور ایک دوسرے میں فانی تھے ۔ خلافت کا معاملہ بھی ان کے نزدیک مرغوب و مطبوع نہ تھا ۔ جس کو کینہ و عداوت کا موجب قرار دیا جائے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اقبلوبی ( یعنی مجھ سے بیعت موڑ کر خلافت واپس لے لو ) کا ظاہر ہونا مشہور و معروف ہے اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی خریدار مل جائے تو اس خلافت کو ایک دینار کے بدلے بیچ ڈالوں اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی خواہش کے لیے معاویہ کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہیں کیا بلکہ باغیوں کے ساتھ لڑائی کرنا فرض سمجھ کر ان کا مقابلہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ فَقَاتِلُو الَّتِي تبغى حَتى تَفِيءَ إِلَى اَمرِ الله تم باغی گروہ سے یہاں تک لڑو کہ اللہ تعالی کی طرف پھر آئے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑائی کرنے والے باغی ہیں ۔ جو

سب کے سب صاحب تاویل اور صاحب رائے و اجتہاد تھے ۔ اگر اس اجتہاد میں خطا کار بھی ہوں تو بھی طعن و ملامت اور تفسیق و تکفیر سے دور اور پاک ہیں۔


حضرت امیر رضی اللہ عنہ ان کے حق میں فرماتے ہیں کہ اِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا لَيْسُوا فَسَقَةً وَ لا كَفَرَةٌ لِمَا لَهُمْ مِنَ التَّاوِيْلِ ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی نہ فاسق ہیں نہ کافر، کیونکہ ان کے لیے تاویل ہے۔

امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے کہ تلک دِمَاء أَظْهَرَ اللهُ عَنْهَا أَيْدِينَا فَنُطَهَرُ عَنْهَا الْسِنَتِنَا یہ وہ خون ہیں جن سے ہمارے ہاتھوں کو اللہ تعالیٰ نے پاک رکھا۔ پس ہمیں اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھنا چاہئے ۔

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلُ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُو رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِیمُ یا اللہ ہم اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ایمان لے کر ہم سے چلے گئے بخش اور ایمانداروں کے لیے ہمارے دلوں میں کوئی غل و غش نہ چھوڑ یا اللہ تو ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِ الْأَنَامِ وَ عَلَى الِهِ وَأَصْحَابِهِ الْكِرَامِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامِ.

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا