81

مکتوب 313: ذیل سوالوں کے عمل و جواب میں خواجہ محمد ہاشم کی طرف۔


مکتوب 313

مفصلہ ذیل سوالوں کے عمل و جواب میں خواجہ محمد ہاشم کی طرف لکھا ہے۔

سوال اول: اصحاب کرام کے کمالات فنا و بقا اور سلوک وجذ بہ پر موقوف ہیں یا نہیں؟

سوال دوم: طریقہ علیہ نقشبندیہ میں ریاضتوں سے منع کرتے ہیں اور یہ ان کو معفر جانتے ہیں۔ حالانکہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے سخت ریاضتیں برداشت کی ہیں؟
سوال سوم : یہ طریقہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف کیوں منسوب ہے۔
سوال چہارم: آپ نے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ طالب کو ولایت موسوی سے تصرف کے ساتھ ولایت محمد ی میں نہیں لے جا سکتے اور دوسرے مکتوب میں لکھا ہے کہ تم کو ولایت موسوی سے ولایت محمدی میں لے آئے۔ ان دونوں باتوں میں موافقت کی وجہ کیا ہے۔
سوال پنجم: پیراہن پیش چاک پہنا چاہئے یا پیراہن حلقہ گریبان؟

سوال ششم: نفی اثبات کے ذکر کے وقت جو دل سے کہا جاتا ہے لا کو اوپر کی طرف اور ان کو دائیں طرف کیوں لے جاتے ہیں اور مکتوب کے آخر میں آداب پیر کو بیان فرمایا ہے؟

اور نیز آپ نے فرمایا ہے کہ مکتوبات کے دفتر کو اسی مکتوب پرختم کریں اور عدد تین سو تیرہ کی رعایت کریں کہ پیغمبران مرسل علیہم الصلوۃ والسلام اور اصحاب اہل بدر رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی تعداد کے موافق ہیں۔

نیز آپ نے فرمایا ہے کہ اس مکتوب کے خاتمہ میں وہ عرضداشتیں جو حضرت مخدوم زادہ کلاں علیہ الرحمة والغفران نے لکھی ہیں۔ لکھ دیں تا کہ پڑھنے والے دعا وفاتحہ کے ساتھ ان کو یاد کریں۔

حمد و صلوۃ اور تبلیغ و دعوات کے بعد اخی محمد ہاشم کی خدمت میں فقیر عرض کرتا ہے کہ وہ سوال جن کا حل میر سید محب اللہ کے مکتوب میں طلب فرمایا تھا۔ ان کا جواب لکھ کر بھیجا گیا ہے۔ سوال اول کا حاصل یہ ہے کہ قرب الہی جل شانہ، فنافی اللہ اور بقا باللہ اور جذبہ اور سلوک کے تمام مقامات کے مطے کرنے پر موقوف ہے اور اصحاب کرام جو حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک ہی صحبت سے تمام اولیاء امت سے افضل ہو گئے ۔ کیا یہ سیر و سلوک اور فنا و بقاء جوان کو ایک ہی صحبت میں حاصل ہوا۔ وہ دوسرے تمام سیر وسلوک سے افضل تھا یا کیا اسلام لانے کے ساتھ ہی آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کی توجہ و تصرف سے اصحاب کرام کو فنا و بقا حاصل ہو جاتا تھا اور نیز ان ا کو سلوک و جذ بہ کا علم حالاً و مقاما حاصل تھا یا نہیں اور اگر حاصل تھا تو کس نام سے بیان کرتے تھے اور اگر سلوک و تصرف کا طریق نہ تھا تو ان کو بدعت حسنہ کیوں نہ کہیں۔


جاننا چاہئے کہ اس مشکل کا حل ہونا صحبت اور خدمت پر موقوف ہے۔ وہ بات جو اتنی مدت تک کسی نے نہیں کہی ۔ وہ ایک دفعہ لکھنے میں کس طرح آپ کی سمجھ میں آجائے گی لیکن چونکہ آپ نے سوال کیا ہے۔ اس واسطے جواب کا لکھنا ضروری ہے۔ پس اجمال کے طور پر اس کا حل کیا جاتا ہے۔ غور سے سنیں ۔ وہ قرب جو فنا و بقا اور سلوک و جذ بہ پر موقوف ہے۔ وہ قرب ولایت ہے جس کے ساتھ اولیائے امت مشرف ہوئے ہیں اور وہ قرب جو حضرت خیر الا نام علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے اصحاب کرام کو میں ہوا تھا۔ وہ قرب نبوت تھا جو تبعیت اور وراثت کے طور پر آپ کو حاصل ہوا تھا۔ اس قرب میں نہ فنا ہے نہ بقا نہ جذ بہ ہے نہ سلوک اور یہ قرب کئی درجے قرب ولایت سے اعلیٰ و افضل ہے کیونکہ یہ قرب قرب اصالت ہے اور وہ قرب قرب ظلیت ۔ شــان مَا بَيْنَهُمَا ( ان دونوں میں بہت فرق ہے ) لیکن ہر شخص کا فہم اس معرفت کے مذاق تک نہیں پہنچتا۔ بلکہ ممکن ہے کہ خواص لوگ اس معرفت کے سمجھنے میں عوام کے ساتھ شریک ہوں –

گر بو علی نواء قلندر نواختے
صوفی بدلے ہر آنکه بعالم قلند ر است

ترجمه: گر بوعلی بجا تا قلندر کی بانسری
بن جاتے صوفی سارے قلندر جہان کے

ہاں اگر قرب ولایت کی راہ سے کمالات نبوت کی بلندی پر عروج واقع ہوتو پھر فنا و بقا و جذ بہ وسلوک ضروری ہیں کیونکہ یہ سب اس قرب کے مبادی اور معدات اسباب ہیں اور اگر اس راستہ پر نہ چلیں اور قرب نبوت کی شاہراہ کو اختیار کریں تو پھرفنا و بقاو جذ بہ وسلوک کی کچھ حاجت نہیں ۔ تمام اصحاب کرام رضی اللہ عنہم قرب نبوت کی شاہراہ پر چلے ہیں جس میں جذ بہ و سلوک فنا و بقا در کار نہیں۔ اس معرفت کا بیان اس مکتوب سے جو مولا نا امان اللہ کی طرف لکھا گیا ہے، معلوم کر لیں ۔

اس فقیر نے ہر جگہ اپنے مکتوبات اور رسائل میں لکھا ہے کہ میرا معاملہ سلوک و جذ بہ کے ماسوا اور تجلیات و ظہورات کے ماوراء ہے ۔ اس سے مراد یہی قرب ہے۔ میں اپنے خواجہ قدس سرہ کی خدمت و ملازمت میں حاضر تھا کہ یہ دولت مجھ پر ظاہر ہوئی تھی اور میں نے اس عبارت میں آپ و کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ مجھ پر ایسا امر ظاہر ہوا ہے کہ سیر انفسی کو اس امر کے ساتھ وہ نسبت ہے جو سیر آفاقی کو سیر انفسی کے ساتھ ہے اور میں نے اپنے آپ میں اس سے زیادہ طاقت و قدرت نہ پائی کہ اس عبارت کے سوا کسی اور عبارت میں اس دولت کی تعبیر کر سکوں۔ چند سال کے بعد جب یہ معاملہ عجیبہ صاف طور پر ظاہر اور واضح ہوا تو مجملہ عبارات میں تحریر کیا گیا۔ الحمد لله الذي هدانا لهذا وما كنا لنهتَدِى لَوْ لا أَنْ هَدَنَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبَّنَا بالحق اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے ۔ بیشک ہمارے اللہ کے رسول بچے ہیں۔

پس فنا و بقا اور جذ بہ اور سلوک کی عبارت محدث اور مشائخ کی مخترعات سے ہوگی ۔ مولوی جای علیہ الرحمۃ فلمحات میں لکھتے ہیں کہ اول جس شخص نے فنا و بقا کا دم مارا ہے حضرت ابو سعید خراز قدس سرہ ہیں۔

دوسرے سوال کا حاصل یہ ہے کہ طریقہ علیہ نقشبندیہ میں سنت کی متابعت کو لازم جانتے ہیں حالانکہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے عجیب و غریب ریاضتیں اور سخت بھوک پیاس کی تکلیفیں برداشت کی ہیں اور اس طریقہ میں ریاضتوں سے منع کرتے ہیں بلکہ صورتوں کی کشف کے باعث ریاضتوں کو مضر جانتے ہیں۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ سنت کی متابعت میں ضرر کا احتمال کیسے متصور ہو سکتا ہے۔ اے محبت کے نشان والے ۔ کسی نے کہا ہے کہ اس طریق میں ریاضتوں سے منع کرتے ہیں اور کہاں سے سنا ہے کہ ریاضتوں کو مضر جانتے ہیں۔ اس طریق میں نسبت کی دائی حفاظت کرنا اور سنت کی متابعت کو لازم پکڑنا اور اپنے احوال کے چھپانے میں کوشش کرنا اور تو سط حال اور درمیانی چال کا اختیار کرنا اور کھانے پینے اور پہننے میں حد اعتدال کو مد نظر رکھنا سخت ریاضتوں اور مشکل مجاہدوں سے جانتے ہیں۔

حاصل کلام یہ کہ عوام کا انعام ان امور کو ریاضت ومجاہدہ نہیں جانتے ۔ ان کے نزدیک ریاضت و مجاہد و صرف بھوکا رہنا ہی ہے اور ان کی نظر میں بہت بھوکا رہنا بڑا بھاری امر ہے کیونکہ ان چار پاؤں کے نزدیک کھانا نہایت ضروری اور اعلیٰ مقصد ہے جن کا ترک کرنا ان کے نزدیک سخت ریاضت اور دشوار مجاہدہ ہے اور نسبت کی دوام محافظت اور سنت کی متابعت کا التزام وغیرہ وغیرہ عوام کی نظر میں کچھ قدر و اعتبار نہیں رکھتا تا کہ ان کے ترک کو منکرات سے سجائیں اور ان امور کے حاصل کرنے کو ریاضتوں سے پہچانیں۔ پس اس طریق کے بزرگواروں پر لازم ہے کہ اپنے احوال کو چھپانے میں کوشش کریں اور ایسی ریاضت کو ترک کر دیں جو عوام کی نظروں میں عظیم القدر اور خلق کی قبولیت اور شہرت کا باعث ہو کیونکہ شہرت میں آفت اور شرارت ہے۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ بحسب المرء أنْ يُشَارَ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ فِي دِيْنِ أَوْ

دُنْيَا إِلَّا مَنْ عَصِمَهُ اللهُ تَعَالیٰ ( آدمی کے لئے یہی ثمر کافی ہے کہ دین یا د نیا میں انگشت نما ہو مگر جس کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔)


فقیر کے نزدیک ماکولات یعنی کھانے پینے کی چیزوں میں حد اعتدال کو مد نظر رکھنے کی نسبت دور دراز بھوک پیاس کا برداشت کرنا آسان ہے لیکن حد اعتدال کو مدنظر رکھنے کی ریاضت کثرت بھوک ریاضت سے زیادہ مفید ہے۔

حضرت والد بزرگوار قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے علم سلوک میں ایک رسالہ دیکھا ہے جس میں لکھا ہے کہ ماکولات میں اعتدال اور حد اوسط کو نگاہ رکھنا مطلب تک پہنچنے کے لئے کافی ہے۔ اس رعایت کے ہوتے زیادہ ذکر وفکر کی حاجت نہیں ۔ واقعی کھانے پینے اور پہننے بلکہ تمام امور میں توسط حال اور میانہ روی بہت ہی زیبا اور عمدہ ہے


نه چنداں بخود کز وہانت برآید
نه چندانکه از خصف جانت برآید


ترجمہ
: نہ کھا اتنا کہ نکلے منہ سے باہر
نہ کم اتنا کہ تن سے جان نکلے


اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کو چالیس آدمیوں کی قوت عطا فرمائی تھی جس کے سبب سخت بھوک برداشت کر لیا کرتے تھے اور اصحاب کرام بھی حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کی برکت سے اس بوجھ کو اٹھا سکتے تھے اور ان کے اعمال و افعال میں کسی قسم کا فتور اور خلل نہ آتا تھا اور بھوک کی حالت میں دشمنوں کی لڑائی پر اس قدر طاقت رکھتے تھے کہ سیر شکموں کو اس کا دسواں حصہ بھی نصیب نہ تھی ۔ یہی باعث تھا کہ میں صابر آدمی دوسو کا فروں پر غالب آ جاتے تھے اور سو آدمی ہزار پر غلبہ پا جاتا تھا اور صحابہ کے سوا اور لوگ بھوک برداشت کرنے والوں کا تو یہ حال ہے کہ آداب و سنن کے بجالانے سے عاجز ہیں بلکہ بسا اوقات فرائض کو بھی بمشکل ادا کر سکتے ہیں۔ بغیر طاقت کے اس امر میں صحابہ کی تقلید کرنا گویا فرائض وسنن کے ادا کرنے میں آپ کو عاجز کرنا ہے۔

منقول ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام کی تقلید کر کے وصال کے روزے اختیار کیے اور ضعف و ناتوانی سے بے خود ہو کر زمین پر گر پڑے۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اعتراض کے طور پر فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو میری مانند ہو ۔ میں رات کو
اپنے رب کے پاس ہوتا ہوں اور وہی مجھے کھلاتا ہے۔ پس انہوں نے طاقت کے بغیر تقلید کرنا بہتر

اور پسند نہ جانا ۔

اور نیز اصحاب کرام حضرت خیر البشر علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کی برکت سے کثرت جوع کی پوشیدہ تکلیفوں سے محفوظ اور مامون تھے اور دوسروں کو یہ حفظ وامن میسر نہیں۔ اس کا بیان یہ ہے کہ زیادہ بھوک البتہ صفائی بخشتی ہے۔ بعض کے دل کو اور بعض کے نفس کو صفائی بخشتی ہے ۔ قلب کی صفائی سے ہدایت بڑھتی ہے اور نور زیادہ ہوتا ہے اور نفس کی صفائی سے گمراہی زیادہ ہوتی اور سیاہی بڑھتی ہے۔ یونان کے فلاسفر اور برہمنوں اور جو گیوں کو بھوک کی ریاضت نے صفائی بخش کمر گمراہی اور خسارہ میں ڈال دیا۔ افلاطون بے وقوف نے اپنے نفس کی صفائی پر بھروسہ کیا اور اپنی خیالی کشفی صورتوں کو اپنا مقتداء بنا کر مغرور ہور ہا اور حضرت عیسی علی موینا وعلیہ الصلوۃ والسلام پر جو اس زمانہ میں مبعوث ہوئے تھے ایمان نہ لایا اور یوں کہا کہ نَحْنُ قَوْمٌ مَهْدِيُّونَ لَا حَاجَةَ بِنَا إلى من يهدينا (ہم ہدایت یافتہ لوگ ہیں ہمیں کسی ہدایت دینے والے کی حاجت نہیں ) اگر اس میں یہ ظلمت بڑھانے والی صفائی نہ ہوتی تو اس کی خیالی کشفی صورتیں ان کو راہ راست سے نہ روکتیں اور مطلب کے پانے سے اس کو مانع نہ ہوتیں۔ اس نے اس صفائی کے گمان پر اپنے آپ کو نورانی خیال کیا اور اس نے نہ جانا کہ یہ صفائی اس کے نفس امارہ کے باریک چھڑے سے آگے نہیں گزری اور اس کا نفس امارہ اپنی پہلی خبث ونجاست پر ہے۔ اس کی مثال بعینہ اسی طرح ہے جس طرح نجاست مغلظہ کو رقیق غلاف کی شکل میں ظاہر کر دکھا ئیں۔ قلب جو فی صد ذاتہ پاکیزہ اور نورانی ہے۔ نفس علمانی کی ہم نشینی سے جوز نگار اس پر آ جائے تھوڑے سے تصفیہ کے ساتھ اپنی اصلی حالت پر آ جاتا ہے اور نورانی ہو جاتا ہے۔ برخلاف نفس کے جوفی حد ذاتہ خبیث ہے اور ظلمت اس کی ذاتی صفت ہے جب تک قلب کی سیاست اور سنت کی متابعت اور شریعت کی اتباع بلکہ محض فضل خداوندی سے پاک وصاف نہ ہو جائے اور اس کا خبث ذاتی دور نہ ہو جائے ۔ تب تک اس سے نجات اور بہتری متصور نہیں۔ افلاطون نے اپنی کمال جہالت سے اپنی صفائی کو جو اس کے نفس امارہ سے تعلق رکھتی تھی۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے قلب کی صفائی کی طرح خیال کیا اور اپنے آپ کو بھی ان کی طرح مہذب اور مطہر خیال کر کے ان کی متابعت کی دولت سے محروم رہا اور ہمیشہ کے خسارہ میں پڑا رہا۔ اَعَاذَنَا اللهُ تَعَالَى مِنْ هَذَا البَلاءِ اللہ تعالی ہم کو اس بلا سے بچائے۔

جب اس قسم کے خطرے بھوک میں پائے جاتے تھے ۔ اس واسطے اس طریق کے بزرگوں نے بھوک کی ریاضت کو ترک کیا اور کھانے پینے میں اعتدال کی ریاضت اور میانہ روی کے مجاہد ہ کی طرف رہنمائی کی اور بھوک کےنفعوں اور فائدوں کو اس بڑے ضرر کے احتمال پر ترک کر دیا اور
دوسروں نے بھوک کے منافع کا ملاحظہ کر کے اس کے ضرر کی طرف نہ دیکھا اور بھوک کی طرف ترغیب دی اور عقلمندوں کے نزدیک یہ بات ثابت اور مقرر ہے کہ نہر کے احتمال پر بہت سے منافع کو چھوڑ سکتے ہیں اور اس کلام کے قریب قریب ہے جو علماء نے فرمایا ہے کہ آمر کوئی امر سنت اور بدعت کے درمیان دائر ہو تو سنت کے بجالانے کی نسبت بدعت کا ترک کرد یا بہت ہے یعنی بدعت میں ضرر کا احتمال ہے اور سنت میں نفع کی امید ۔ پس ضرر کے احتمال کو قلع کی امید پاتو نیا دے کر بدعت کو ترک کر دینا چاہئے تا کہ ایسا نہ ہو کہ سنت کے بجا انے میں دوسری طرف سے نہر پیدا ہو ۔ اس مشن کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سنت گویا اس زمانہ پر موقف ہے۔ بعض نے چونکہ وقت ولفات باعث اس کے معرفت ہونے کو معلوم نہ کیا۔ اس لئے اس کی تنقید میں ائیر کی اور سیبلری کی اور بعض نے اس کو معرفت جان کر اس کی تقلید اختیار نہ کی۔ واللہ سبحانة العلم بحقيقة الحال حقیقت حال کو اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ اس طریقہ علیہ کی کتابوں میں لکھہ ہے کہ اس طریق کی نسبت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے ۔ بر خلاف دوسرے طریقوں کے۔ اگر مدعی ہے کہ اکثر طریق امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی تک پہنچتے ہیں اور حضرت امام جعفر صادق حفرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب ہے۔ پھر دوسرے سلسلے حضرت صدیق بین کی طرف کیوں منسوب نہ ہوں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی نسبت رکھتے ہیں اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ سے بھی اور حضرت امام میں ان دونوں اعلیٰ نسبتوں کے جمع ہونے کے باوجود ایک نسبت کے کمالات ہدا اور ایک دوسرے سے متمیز ہیں ۔ بعض نے صدیقی مناسبت کے باعث حضرت امام رینی اللہ تعالٰی عنہ سے نسبت صدیقیہ حاصل کی اور حضرت حیق ابو بکر رضی اللہ تعالی کی طرف منسوب ہوگئی اور بعض نے امیری مناسبت کے نسبت امیر یہ اخذ کی اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہو گئے ۔

یه فقیر ایک دفعہ پرگنہ بنارس میں گیا ہوا تھا جہاں کہ دریائے گنگا اور جمنا یا ہم ملتے ہیں وہاں دونوں پانیوں کے ملنے کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ گنگا کا پانی الگ ہے اور جمنا کا پانی جدا دو نوں کے درمیان برزخ ہے جو دونوں پانیوں کو آپس میں ملنے نہیں دیتا اور جولوگ دریائے گنگا کے پانی کی طرف ہیں وہ اس جمع ہوئے پانی سے گنگا کا پانی پیتے ہیں اور جولوگ دریائے جمنا کے پانی کی طرف ہیں وہ دریائے جمنا کا پانی پیتے ہیں۔

اور اگر نہیں کہ خواجہ محمد پارسا قدس سرہ نے رسالہ قدسیہ میں تحقیق کی ہے کہ حضرت امیر اللہ نے جس طرح حضرت رسالت خاتمیتہ علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام سے تربیت پائی ہے۔ اسی طرح حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی پائی ہے۔ پس حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی نسبت بعینه حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت ہے پھر ان میں کیا فرق ہے تو میں کہتا ہوں کہ نسبت کے متحد ہونے کے باوجود محل و مقام کے تعدد کی خصوصیتیں اپنے حال پر ہیں۔ ایک ہی پانی مختلف مکانوں کے باعث الگ الگ خصوصیتیں پیدا کر لیتا ہے۔ پس جائز ہے کہ ہر ایک کی خصوصیت کی طرف نظر کر کے ہر ایک طریقہ اس کی طرف منسوب ہو۔

سوال چہارم کا حاصل یہ ہے کہ ملامحمد صدیق کے مکتوب میں لکھا ہے کہ ایک شخص ولایت موسوی کی استعداد رکھتا ہے اس کو کوئی صاحب تصرف ولایت محمدی کی استعداد میں نہیں لاسکتا اور در رویش زادہ کلاں قدس سرہ کے مکتوبات میں لکھا ہے کہ تم کو ولایت موسوی سے ولایت محمدی میں لے آیا ۔ ان دونوں باتوں میں موافقت کس طرح ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جو ملا محمد صدیق کے مکتوب میں واقع ہے کہ معلوم نہیں ہے کہ ولا بیت موسوکی سے ولایت محمدی میں لے جائیں۔ اس وقت اس امر کے واقع ہونے کا عمل نہ تھا۔ اس کے بعد اس امرکہ علم اور تغیر و تبدل کی قدرت عطا فر مادی اور پھر لکھا ہے کہ تم کو اس ولایت سے ولایت محمدی میں لے گئے ۔ زمانہ متحد نہیں ہے تا کہ ناقص متصور ہو۔

سوال پنجم کا حاصل یہ ہے کہ اس جگہ کے صوفی پیرا ہن پیش چاک پہنتے ہیں اور اس کو سنت جانتے ہیں اور بعض کتب معتبر و فقیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیراہن پیش چاک مردوں کو نہ پہننا چاہئے کہ عورتوں کا لباس ہے۔

امام احمد علیہ الرحمتہ اور ابو داؤد رحمتہ اللہ علیہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے میں کہ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس مرد پر جو عورت کا لباس پہنے اور اس عورت پر جو مرد کا لباس پہنے لعنت ہے اور مطالب المومنین میں ہے کہ عورت مرد کی مشابہت نہ کرے اور مرد عورت کی مشابہت نہ کرے کیونکہ دونوں پر لعنت ہوتی ہے۔

بلکہ مفہوم ہوتا ہے کہ پیرا من پیش چاک اہل علم اور اہل دین کا شعار نہیں ہے۔ اسی واسطے اہل ذمہ کے لئے یہ لباس تجویز کیا گیا ہے۔ جامع الرموز اور محیط میں منقول ہے کہ وہ لباس جو اہل علم اور اہل دین کے ساتھ مخصوص ہے یعنی رداء اور عمامہ اہل ذمہ نہ پہنیں جبکہ موٹے کپڑے کی قمیض پہنیں جس کے سینے پر عورتوں کی طرح چاک ہو۔

اور نیز بعض علماء کے قول کے موافق پیش چاک تعریض نہیں ہے بلکہ درج ہے۔ ان کے نزدیک قمیض وہ ہے جس کے دونوں کندھوں پر چاک ہوں۔ جامع الرموز اور ہدایہ میں جہاں عورت کے کفن کا بیان ہے۔ لکھا ہے کہ مین کے بدلے دریا ہے اور ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ درع کا چاک سینے میں ہوتا ہے اور قمیض کا چاک دونوں کندھوں کی طرف اور لافضل ترادف کے قائل ہیں یعنی دونوں کا ایک ہی معنی سمجھے ہیں۔

فقیر کے نزدیک بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب مردوں کو عورتوں کا سالیاں پہننا منا ہے تو جہاں عورتیں پیرامن پیش چاک پہنتی ہیں۔ وہاں مردوں کو چاہئے کہ عورتوں کی مشابہت کو ترک کر کے پیرا ہن حقہ گریبان پہنیں اور جس جگہ عورتیں پیا من حاقہ گریبان پہنتی ہیں وہاں مرد پیرا ہن پیش اختیار کریں اور عرب میں عورتیں پیرا ہن حلقہ کر بیان پہنتی ہیں اس لئے مرد پی ایمن پیش چاک پہنتے ہیں اور ماوراء النہر اور بند میں عورتوں کا لباس پیرا نان پیش چاک ہے اس لئے مرد پیرا ہن حلقہ گریبان اختیار کریں۔

میاں شیخ عبدالحق دہلوی بیان کرتا تھا کہ میں حضرت مکہ میں تھا کہ میں نے دیکھا کہ شین نظام نارنولی کا ایک مرید پیرا ان حلقہ گریبان پہنے ہوئے طواف کر رہا ہے اور عرب کے لوگ اس کی پیرا ہن دیکھ کر تعجب کرتے اور کہتے ہیں کہ عورتوں کا ہیے ہن پہنا ہوا ہے۔ پس عرف و عادت کے اعتبار سے عرب کے طریق پر عمل کرنا بہتر ہوگا اور ہند و ماوراء النہر کے عمل کے موافق بھی بہتر ہوگا۔ لِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَيْهَا ہر ایک کے لئے ایک بہت ہے جس کی طرف وہ منہ کرنے والا ہے۔ اگر پیراہن پیش چاک کا سنت ہونا ثابت ہوتا تو علماء حنفیہ یہ لباس اہل ذمہ کے لئے تجویز نہ کرتے اور اہل علم اور اہل دین کے ساتھ ہی مخصوص رکھتے۔ چونکہ عورتیں اس لباس میں پیش قدم ہیں ۔ اس جگہ مردوں کا لباس عورتوں کے لباس کے تابع ہو گیا ہے۔

سوال ششم کا حاصل یہ ہے کہ جب ابتداء ہی سے اس طریق کے حالیوں کی توجہ احدیت صرف کی طرف ہے تو چاہئے کہ توجہ فی اثبات کے ساتھ جمع نہ کیو کا فی کے وقت غیر کی طرف توجہ ہوتی ہے۔

جواب یہ ہے کہ غیر کی طرف توجہ کرنا توجہ احدیت کی تقویت اور تربیت کیلئے ہے اور غیر کی نئی مقصود اغیار کی مزاحمت کے اس توجہ کا دائمی طور پر حاصل ہونا ہے پس غیر کی نفی کی توجہ احدیت کی توجہ کے منافی نہ ہوگی کیونکہ احدیت کی تو جبکے منافی غیر کی توجہ ہے نہ کہ غیر کے ابھی کی توجہ مشتان ما تشتهما ان دونوں میں بہت فرق ہے۔

سوال ہفتم کا حاصل یہ ہے۔ اس کا طریقہ میں مبتدی جو ذ کر کام و زبان سے کہتا ہے۔ اس ذکر کو دل سے بھی کہتا ہے تو پھر دل نفی اثبات کا پور اذکر کرتا ہے یا نہیں۔ اگر پور اؤ کر کرتا ہے تو پھر لا کو اوپر کی طرف اور الہ کو دائیں طرف کیوں پھیرتے ہیں۔

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا

اس کا جواب یہ ہے کہ قب اگر تمام ذکر کہے تو کیا نقصان سے اور لیکواہ کی طرف اور ایسی کو دائیں طرف پھیرتے ہیں اور الا اللہ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اس طریق میں تنی اثبات کو تخیل میں ادا کرتے ہیں اور کام و زبان سے کچھ تعلق نہیں رکھتے تا کہ جو کچھ کہتے ہیں دل اس کو بخوبی قبول کرے۔

آپ کے یہ دوا خیر کے سوال مفخر رازی کی تشکیکات کی قسم سے ہیں ۔ اگر آپ ان سوالوں کی طرف بخوبی توجہ کرتے تو جلدی آپ کا شک رفع ہو جاتا۔

باقی مقصود یہ ہے کہ وہاں کے بعض یاروں نے کئی دفعہ لکھا ہے کہ میر محمد نعمان ان دنوں میں طانیوں کے احوال پر کچھ غور و پرداخت نہیں کرتے اور عمارت کے بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور فتوحات کا رو پی ٹمارت پر خرچ کر رہے ہیں جس سے فقراء بے نصیب رہ جاتے ہیں۔ یاروں نے ان حالات کو اس طرح لکھا تھا کہ ان سے اعتراض اور روگردانی کی آمیزش مفہوم ہوتی تھی اور انکار کی بو آتی تھی۔ آپ بخوبی سمجھ لیں کہ اس گروہ یعنی اہل اللہ کا انکار زہر قاتل ہے اور بزرگوں کے افعال و اقوال پر اعتراض کرنا ز مرافعی ہے جو ہمیشہ کی موت اور دائگی بلاکت میں ڈالتا ہے۔ خاص کر جنگلہ یہ اعتراض وانگار پیر کی طرف عائد ہو اور پیر کی ایذاء کا سبب ہو۔ اس گروہ کا منکر ان کی دونت سے محروم ہے اور ان پر اعتراض کرنے والا ہمیشہ نا امید اور زیاں کا ر رہتا ہے جب تک پیر کے تمام حرکات و سکنات مرید کی نظر میں زیبا اور مجرب نہ ہوں ۔ تب تک پیر کے کمالات سے اس کو کچھ حصہ نہیں ملتا اور اگر کچھ کمال حاصل بھی کرلے تو یہ استدراج ہے جس کا انجام خرابی در سوائی ہے۔ مرید اپنے پیر کی کمال محبت اور اخلاص کے باوجود اگر اپنے آپ میں بال بھر میں اعتراض کی گنجائش دیکھے تو اسے کجھنے چاہئے کہ اس میں خرابی ہے اور وہ پیر کے کمالات سے بے نصیب ہے اگر بالفرض پیر کے کسی فعل میں شبہ پیدا ہو جائے اور کسی طرح دفع نہ ہو سکے تو اس کو اس طرح دریافت کرے کہ اعتراض کی آمیزش سے پاک اور انکار کے گمان سے صاف ہو کیونکہ اس جہان میں حق باطل کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اگر پیر سے کسی وقت خلاف شریعت امر صادر ہو جائے تو مرید کو چاہئے کہ اس امر میں پیر کی تقلید نہ کرے اور جہاں تک ہو سکے حسن ظن کے ساتھ اس کو نیک وجہ پر محمول کرے اور اس امر کی صحت و درستی کی وجہ تلاش کرتا رہے اگر صحت کی وجہ نہ ملے تو چاہئے کہ اس ابتلاء کے دفع کرنے میں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا ، واقبہ کرے اور کمر یہ وزاری سے پیر کی سلامتی طلب کرے اور اگر مرید کو پیر کے حق میں کسی امر مباح کے ارتکاب کے باعث کوئی شبہ پیدا ہو تو اس شبہ کا کچھ اعتبار نہ کرے جب مالک الوجود جل شانہ نے امر مبات کے اختیار کرنے سے منع نہیں اور کوئی اعتراض نہیں فرمایا تو پھر دوسرے کا کیا حق ہے کہ اپنے پاس سے اعتراض کرے بسا اوقات کئی جگہ اولیٰ کے بجالانے سے اس کا ترک کرنا بہتر ہوتا ہے۔


حدث نبوی صلى الله عليه وسلم میں آیا ہے ان الله كما يُحبُّ أَنْ يُؤْتَى بِالْعَزِيمَة يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى بالرخصة كـ اللہ تعالیٰ جس طرح عزیمت کا بجالا نا دوست رکھتا ہے۔ اسی طرح رخصمت پر قمل کرنا بھی پسند کرتا ہے۔

حضرت میر کو بے شمار فیض حاصل ہیں۔ اگر فیض کے دنوں میں مریدوں کے احوال پر غور نہ بھی کریں اور بعض امور مباحہ سے اپنی تسلی کریں تو کوئی اعتراض کی جگہ نہیں ہے ایسے حال میں عبداللہ اصطغرمی اپنی تسلی کے لئے سکبانوں کے ہمراہ جنگل میں شکار کے واسطے چلے جایا کرتے تھے اور بعض مشائخ ایسے حال میں سماع و نغمہ سے اپنی تسلی کیا کرتے تھے ۔


وَالسَّلاَمُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفَى عَلَيْهِ و على الصَّلوةُ وَالسَّلامُ اَتَمُهَا وَأَكْمَلُها سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کے راستہ پر چلا اور حضرت مصطفیٰ صلى الله عليه وسلم کی متابعت کو لازم پکڑا ۔