72

مکتوب 312: چند سوالوں کے جواب اور اشارہ سبابہ کی تحقیق اور جو کچھ اس بارے میں


مکتوب 312

چند سوالوں کے جواب اور اشارہ سبابہ کی تحقیق اور جو کچھ اس بارے میں علماء حنفیہ کے نزدیک مختار ہے۔ اس کے بیان میں میر محمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلامُ عَلَى سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ وَعَلَى إِخْوَانِهِ مِنَ الأنبياءِ وَالْمُرْسَلِينَ وَالْمَلَئِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَعِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَجْمَعِينَ

آپ کا صحیفہ شریفہ جو ملامحمود کے ساتھ ارسال کیا تھا، پہنچا۔ بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ آپ نے پو چھا تھا کہ علماء کہتے ہیں کہ روضہ منبر کہ مدینہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام والتحیہ کی زمین مکہ معظمہ سے بزرگ تر ہے حالانکہ کعبہ معظمہ کی صورت و حقیقت صورت و حقیقت محمدیہ کے لئے مسجود ہے۔ پھر روضہ متبرکہ کی زمین کس طرح بزرگ تر ہوگی۔

میرے مخدوم! جو کچھ فقیر کے نزدیک اس بارے میں ثابت ہوا ہے۔ یہ ہے کہ تمام جگہوں سے بہتر جگہ کعبہ معظمہ ہے۔ بعد ازاں روضہ مقدسہ مدینہ بعد ازاں حضرت مکہ حَرَسَهَا اللهُ عَنِ الآفات کے حرم کی زمین جن علماء نے روضہ متبرکہ کو مکہ معظمہ سے بہتر کیا ہے ان کی مراد مکہ معظمہ سے کعبہ مقدسہ کے سواد و سری زمین ہوگی۔

نیز آپ نے اشارہ سبابہ کے جواز کے بارے میں پوچھا تھا۔ اس بارے میں مولا نا اعلم اللہ مرحوم کا رسالہ لکھا ہوا ارسال کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق عمل میں لائیں۔

میرے مخدوم اشارہ سبابہ کے جواز کے بارے میں احادیث نبوی صلى الله عليه وسلم بہت وارد ہیں اور فقہ حنفی کی بعض روایات بھی اس بارے میں آئی ہیں جیسا کہ مولانا نیا رسالہ میں لکھی ہیں اور جب فقہ حنفی کی کتابوں میں اچھی طرح ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اشارہ کے جواز کی روایتیں اصول کی روایتوں اور ظاہر مذہب کے برخلاف ہیں۔

اور یہ جو امام محمد شیبانی نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اشارہ کیا کرتے تھے۔ اس واسطے ہم بھی اشارہ کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں جس طرح کہ نبی رکھا کرتے تھے ۔ پھر اس نے کہا ہے کہ یہ میرا اور ابوحنیفہ کا قول ہے۔ امام محمد شیبانی کا یہ قول روایات نوادر سے ہے نہ روایات اصول سے۔ جیسا کہ فتاوی غرائب میں ہے اور محیط میں اس طرح آیا ہے کہ دائیں ہاتھ کی سبابہ انگلی سے اشارہ کریں یا نہ کریں۔ اصل میں امام محمد نے اس مسئلہ کو ذکر ہی نہیں کیا۔ البتہ مشائخ کا اس میں اختلاف ہے اس میں بعض نے کہا ہے کہ اشارہ نہ کریں اور بعض نے کہا کہ اشارہ کریں اور امام محمد نے روایت اصول کے سوا اور روایت میں ایک حدیث نبی صلى الله عليه وسلم روایت کی ہے کہ آنحضرت اشارہ کرتے تھے۔ پھر امام محمد نے کہا ہے کہ یہ میرا اور امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ سنت ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مستحب ہے۔ پھر کہا ہے کہ فقہاء نے اسی طرح ذکر کیا ہے۔

اور صحیح یہ ہے کہ اشارہ حرام ہے اور سراجیہ میں اس طرح ہے کہ نماز میں اَشْهَدُ أن لا إله إلا الله کے وقت سبابہ کا اشارہ مکروہ ہے اور یہی مختار ہے اور کبیری سے بھی اسی طرح روایت ہے

اور اسی پر فتوئی ہے کیونکہ نماز کی بنا سکون اور وقار پر ہے اور فتاوی غیاثیہ میں ہے کہ تشہد کے وقت سبابہ سے اشارہ نہ کرے ہیں مختار ہے اور اس پر فتوی ہے اور جامع اور الرموز میں ہے کہ نہ اشارہ کرے اور نہ عقد کرے اور یہ ہمارے اصحاب کا ظاہر اصول ہے جیسا کہ زاہدی میں ہے اور اسی پر فتوئی ہے جیسا کہ مضمرات اور ولوا جی اور خلاصہ وغیرہ میں ہے اور ہمارے اصحاب سے روایت ہے کہ تا تارخانیہ سے خرمنتہ الروایات میں مذکور ہے کہ جب تشہد میں لا اله الا اللہ پر پہنچے، دائیں ہاتھ کی سبابہ انگلی سے اشارہ کرے لیکن امام محمد نے اصل میں اس کو ذکر نہیں کیا۔ البتہ مشائخ کا اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ نہ اشارہ کرے اور اسی طرح کبیر میں ہے اور اسی پر فتوی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اشارہ کرے اور غاشیہ سے روایت ہے کہ تشہد کے وقت سبابہ سے اشارہ نہ کرے۔ یہی مقدار ہے۔

جب روایات معتبرہ میں اشارہ کی حرمت واقع ہوئی ہو اور اس کی کراہت پر فتوی دیا ہو اور اشارہ وعقد سے منع کرتے ہوں اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہوں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کر کے اشارہ کرنے میں جرات کریں اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتوئی کے ہوتے امر محرم اور مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں حنیفہ میں سے اس امر کا مرتکب در حال سے خالی نہیں ہے یا جانتا ہے کہ علماء مجتہدین کو معروضہ احادیث کا علم نہ تھا جن سے اشارہ کا جواز ثابت ہوتا ہے یا یہ کہ ان کو ان احادیث کا عالم جانتا ہے لیکن ان بزرگواروں کے حق میں ان احلمیت کے موافق عمل پسند نہیں کرتا اور خیال کرتا ہے کہ انہوں نے احادیث کے برخلاف اپنی آراء کے موافق حرمت و کراہت کا حکم کیا ہے یہ دونوں شک فاسد ہیں۔ ان کو سوائے بیوقوف یا دشمن متعصب کے اور کوئی پسند نہیں کرتا اور یہ جو تر غیب الصلوۃ میں کہا ہے کہ تشہد میں انگشت شہادت کا اٹھا نا علماء متقدم کی سنت ہے لیکن علماء متاخرین نے منع کیا ہے۔ اس واسطے کے جب رافضیوں نے اس میں مبالغہ کیا تو سنیوں نے ترک کر دیا ۔ سنی سے رافضی کی تہمت کا دور کرنا روایات معتبرہ کے مخالف ہے کیونکہ ہمارے اصحاب کا ظاہر اصول عدم اشارہ اور عدم مقدم ہے ۔ پس عدم اشارہ علماء ما تقدم کی سنت ہے اور ترک کی وجہ تبت کی نفی کا باعث نہیں ہے۔ ان اکابرین کے ساتھ ہمارا یہاں تک حسن ظن ہے کہ جب تک اس بارے میں حرمت یا کراہت کی دلیل ان پر ظاہر نہیں ہوئی۔ تب تک انہوں نے حرمت و کراہت کا حکم نہیں کیا جب سنت و استجاب کے ذکر کے بعد کہتے ہیں کہ یہ فقہاء نے ذکر کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اشارہ حرام ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگواروں کے نزدیک اس کی سعیت اور استباب صحت کو نہیں پہنچا ہے بلکہ اس کے بر خلاف ان کے نزدیک صحیح ثابت ہوا ہے۔

حاصل کلام یہ کہ ہم کو اس دلیل کا علم نہیں ہے اور یہ امران بزرگواروں کے حق میں ترج و قدح کا موجب نہیں ہے اگر کوئی کہے کہ ہم اس دلیل کے برخلاف علم رکھتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حل و حرمت کے اثبات میں مقلد کا علم معتبر نہیں ہے۔ اس بارے میں مجید کا ظمن معتبر ہے۔ مجتہدین کے دلائل منکبوت یعنی کنری کی تار سے زیادہ ست کہنا بڑی جرات و دلیری کا کام ہے اور اپنے علم کو ان بزرگواروں کے علم پر ترجیح دینا حنفیہ کے ظاہر اصول کو باطل کرنا اور روایات معتبرہ مفتی بیا کو درہم برہم کرنا اور شاذو نادر کہنا ہے ۔ یہ بزرگوار مہد کے قریب ہونے اور علم دورع اور تقوی کے زیادہ حاصل ہونے کے باعث احادیث کو ہم دور افتادن کی نسبت بہتر جانتے تھے اور ان کی صحت و سقم اور شیخ اور عدم نسخ کو ہم سے زیادہ پہچانتے تھے اور ان احادیث کے موافق عمل کے ترک کرنے میں کوئی نہ کوئی وجہ موجہ ضرور رکھتے ہوں گے اس قدر تو ہم کو تا وفہم بھی سمجھتے ہیں کہ احادیث کی روایتیں اشارہ عقد کی کیفیت میں بہت اختلاف رکھتیں ہیں اور نفس اشارہ میں بھی بکثرت اختلاف ظاہر ہے۔ بعض روایات سے مفہوم ہوتا ہے کہ عقد کے بغیر اشارہ کا حکم فرمایا ہے اور جو عقد کے ساتھ اشارہ کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک بعض روایات میں (۵۳) کا عقد تھا اور بعض دوسری روایات میں (۲۳) کا عقد ہے اور بعض نے خنصر اور بنصر کے قبضہ کرنے اور ابہام کو وسطی کے ساتھ حلقہ کرنے سے اشارہ سیاہ کو روایت کیا ہے اور بعض روایت میں صرف ابہام کو دوشی پر رکھ کر اشارہ کا حکم فرمایا ہے اور ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھ کر اور بائیں ہاتھ کو دائیں پاؤں پر رکھ کر اشارہ کیا کرتے تھے اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی پشت پر اور کھنے کو کھنے پر اور بازو کو بازو پر رکھ کر اشارہ کرتے تھے اور بعض روایت میں آیا ہے کہ تمام انگلیوں کو قبض کر کے اشارہ کرتے تھے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سبابہ کے ہلائے بغیر اشارہ کا حکم ہے اور بعض دوسری روایات میں واقع ہے کہ تشہد کے پڑھتے وقت بلا تعین اشارہ کرتے تھے اور بعض روایت میں کلمہ شہادت کے پڑھتے وقت اشارہ کا حکم ہے اور روایات میں اشارہ کرتے تھے اور بعض روایت میں کلمہ شہادت کے پڑھتے وقت اشارہ کا حکم ہے اور روایات میں اشارہ کو دعا کے وقت سے مقید کیا ہے کہ اس طرح فرمایا کرتے تھے۔ بامُقَلِبَ الْقُلُوبِ تَيْتُ قَلْبِي عَلَى دیدگی اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثا بت رکھ۔

جب علماء حنفیہ نے اشارہ کے بجالانے میں راہوں کا اضطراب اور اختلاف دیکھا تو فعل زانہ کو قیاس کے برخلاف نماز میں ثابت نہ کیا کیونکہ نماز کی بنا سکون دو قار پر ہے اور نیز جہاں تک ہو سکے انگلیوں کا قبلہ کی طرف متوجہ رکھنا سنت ہے جیسا کہ رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ فَلْيُوجَهُ مِنْ أَعْضَائِهِ الْقِبْلَةَ مَا اسْتَطَاعَ (جہاں تک ہو سکے اپنے اعضاء کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھے ) اگر کہیں کہ کثرت اختلاف اس وقت مضطرب کرتا ہے جبکہ روایات کے درمیان موافقت ناممکن ہو اور اس مسئلہ میں جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ موافقت ممکن ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ تمام روایات کو مختلف اوقات میں کیا ہو ۔ میں کہتا ہوں کہ بہت سی روایات میں لفظ کان واقع ہوا ہے جو منطقیوں کے نزدیک ادوات کلیہ میں سے ہے اس صورت میں توفیق و موافقت ناممکن ہے۔ اور یہ جو امام اعظم علیہ الرحمہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی حدیث میرے قول کے برخلاف پاؤ تو میرے قول کو ترک کر دو اور حدیث پر عمل کرو ۔ اس حدیث سے مراد وہ حدیث ہے جو حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ کو نہیں پہنچی ہے اور اس حدیث کا علم نہ ہونے کے باعث اس کے بر خلاف علم کیا ہے لیکن اشارہ سبابہ کی حدیثیں اس قسم کی نہیں ہیں۔ یہ حدیثیں مشہور و معروف ہیں اور یہ امر با مکن ہے کہ امام علیہ الرحمہ کو ان احادیث کا علم نہ ہو اور اگر کہیں کہ علماء حنفیہ نے بھی اشارہ کے جواز پر فتوے دیئے ہیں اور فتاوی متعارفہ کے موافق جس طرح عمل کیا جائے ، جائز ہے تو اس کا جاب یہ ہے کہ اگر جواز وعدم جواز اور حل و حرمت میں تعارض واقع ہو تو عدم جواز اور حرمت کی جانب کو ترجیح ہوگی۔

نیز شیخ ابن ہمام نے رفع یدین کے بارے میں کہ رفع اور عدم رفع کی حدیثیں متعارض ہیں۔ ہم قیاس کے ساتھ عدم رفع کی حدیثوں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ نماز کی بنا سکون وخشوع پر ہے جو اجماع کے نزدیک مطلوب و مرغوب ہے اور شیخ ابن ہمام پر تعجب آتا ہے کہ اس نے کہا ہے کہ بہت مشائخ سے عدم اشارہ مروی ہے اور یہ خلاف روایت ہے۔ افسوس ہے کہ اس نے کس طرح جہالت اور عدم علم کو علماء مجتہدین کی طرف منسوب کیا ہے۔ قیاس پر جو شرع کا اصل چہارم ہے۔ عمل کرنے والے ہیں اور حنفیہ کے نزدیک یہی ظاہر مذہب اور ظاہر روایت ہے اور اس شیخ نے راویوں کے بکثرت اختلاف اور اضطراب کے باعث قلتمین کی حدیث کو ضعیف بیان کیا ہے۔ فرزند ارشد محمد سعید اس بارے میں رسالہ لکھ رہا ہے جب تمام ہو جائے گا ۔ روانہ کیا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالی ۔

اور نیز آپ نے پوچھا تھا کہ طالبان طریقہ ہر طرف جمع ہیں اور کسی جگہ دلیری نہیں کی اور نہ ہی کسی کو کہا ہے کہ سر حلقہ ہو جس جانب اشارہ ہو اور جس کو مناسب جانیں فرما ئیں تا کہ جماعت کا سر حلقہ بنایا جائے۔

میرے مخدوم یہ امر آپ کی صلاح پر موقوف ہے۔ استخارہ اور توجہ کے بعد عملدرآمد فرمائیں۔ والسلام عليكم وعلى من لديكم

نوٹس : ویب سائیٹ میں لفظی اغلاط موجود ہیں، جن کی تصیح کا کام جاری ہے۔ انشاء اللہ جلد ان اغلاط کو دور کر دیا جائے گا۔ سیدنا مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کے مکتوبات شریف کو بہتر طریقے سے پڑھنے کے لئے کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیرا